پکنک رےپکنک !
بچپن میں کہانیاں پڑھتے ہوئے پکنک کا لفظ بڑا
دلچسپ لگتا تھا اور ہم ابا سے اس کی ضد کرتے جواب میں وہ فرماتے
لان میں بیٹھ کر کھانا پینا کرلیتے ہیں پکنک
ہوجائے گی اور ہم روٹھ کر کہتے
"وہ تو روز ہی شام کی چائے پیتے ہیں "
اور یوں اپنی فرمائش کےپرخچے اڑتے دیکھتے
ابا جان کے لیے تفریح کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ
وہ چھٹی کے دن ہمیں اپنے مضافاتی علاقے. میں رہایش پذیر کسی رشتہ دار سے ملاقات کو
لے جائیں. ایک تو وہاں پہنچنے کا تکلیف دہ سفر اور پھر ان عزیزوں کی حد سے
بڑھی ہوئی لگاوٹ
مثلاً ہماری پلیٹ میں حد سے زیادہ کھانا بھر کر
انتہائی اصرار سے کھلانے بلکہ منہ میں ٹھونسنے کی کوشش!،
اپنے تمام دور دور تک کے پڑوسیوں کو ہمارا دیدار
کروانا... ہمیں یہ سب کچھ بہت بیزار کردیتا...
پھر وقت بدلا. بھائ بہنوں کی اولادوں کے ساتھ
تفریح گاہوں کی سیر ہوئ. قائد کے مزار سے کلفٹن، سی ویو، الہ دین پارک، کیماڑی سے
کشتی کے ذریعے منوڑا..، اور سند باد تو سفاری پارک... شہر کا کونا چھان مارا.. شہر
کے ہر ریسٹورنٹ پر حاضری دینا... دلچسپ بات یہ کہ ابا بھی اب اس تفریح میں بھرپور
مزہ لیتے امی جان تو پہلے ہی سیر کی بہت شوقین تھیں مگر یہ سب ہماری نظر
میں پکنک سے زیادہ فیملی گیدرنگ ہی رہی.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف اسکول والے بھی سالانہ تفریح کو لے
جاتے مگر اساتذہ کی کڑی نگرانی کے باعث وہ کچھ اتنا زیادہ خوشگوار تاثر
نہ چھوڑتا.. اور پھر وہاں بھی سوال کی بھرمار مثلاً
کا
نام کیوں رکھا گیا ؟Sands Pit
ہمارے جسم میں کون سا اس نام کا عضو ہے؟
یاپھر لڑکوں سے کرکٹ کے بلے کے متعلق سوالات. یہ
کس درخت کی لکڑی سے بنتے ہیں؟ یہ ایک طرف سے چپٹے اور دوسری طرف سے ابھرے
کیوں ہوتے ہیں؟
یقیناً یہ سب ہمارے علم میں اضافے کے لیے ہوتا
ہوگا مگر ہمیں سمندر کنارے پکنک مناتے ہوئے کلاس روم کا ماحول سخت بیزاری کا باعث
بنتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کی معلمہ ایک دفعہ آٹھویں
نویں جماعتوں کو عمر ماروی کے دیس لے گئیں... ہم اس وقت نویں میں تھے
وہاں گروپ بنا کر کھانے کے آئٹمز تقسیم کر دیے
گئے ہمارے گروپ کو شامی کباب ملے تھے.... ہم 8/9 لڑکیاں کباب لیے بیٹھی ہیں... اور
مختلف ذائقہ کے کباب کھا رہی ہیں. اتنی عقل اور ہمت نہ ہوسکی کہ کسی دوسرے گروپ کے
ساتھ مل کر کچھ اور چیز سے بھی لطف اندوز ہوتے. اب یہ تو معلمات کی زمہ داری تھی
مگر وہ تاریخ، جغرافیہ اور ادب کی بحث میں الجھ کر ہمیں بھلا بیٹھی تھیں ۔
پھر اعلیٰ تعلیم کے دور میں بھی طلباء کی مخلوق
مطالعاتی دورے کو پکنک کا رنگ دینے کی کوشش کرتی جس کو اساتذہ ناکام بنانےکی
کوشش کرتے لیکن طلبہ
اکثر کامیاب رہتے مگر پھر بھی ایک قسم کی پابندی ہی رہتی کہ
*اتنی دیر میں یہ کرنا ہے!
*اگلے پوائنٹ تک پہنچنا ہے!
*اپنے مشاہدات درج کرنے ہیں!
* تازہ دم ہونے یا نماز پڑھنے میں زیادہ
وقت نہیں لگانا ہے.... وغیرہ وغیرہ
........
پھر معلمی کا زمانہ ہے،!
بچوں کوپکنک پر لے جانا ایک درد سر سے کم نہ
ہوتا. گن کر چڑھانا اور پھر گنتی کر کے اتارنا، نظم و ضبط برقرار رکھنا....
تو جناب یہ ساری تفصیلات ہیں کہ ہمیں پکنک سے
کوئی رغبت نہیں لگتی اور ہم بیزاری سے اس کا منصوبہ سنتے ہیں ..
.....
نوٹ : یہ ایک پکنک کی روداد کا ابتدائیہ ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں