ٹوئنٹی ٹوئنٹی
عظمیٰ آپا کی آمد پر ملا جلا جذباتی رد عمل دیکھنے پر آیا ۔ کچھ نے کم یا
زیادہ خوشی کا اظہار کیا ، کچھ
خدشات کا شکار ہوئے اور کچھ تو باقاعدہ سوچ میں پڑ گئے ۔ تین سا ل پہلے
وہ دو ماہ گزار گئی تھیں۔اس دفعہ بھی ایک
مہینے کی چھٹی لے کر آئی تھیں کیونکہ گھر کے بڑے
عمرے کی ادائیگی کے لیے جانے والے تھے تو انہیں بچوں کے ساتھ رہنا تھا۔
اگر اسے ان کی واپسی کا عنوان دیا جائے تو اتنے وقفے کے بعد گھر میں خاصی تبدیلیاں واقع ہوچکی
تھیں ۔ ننھا جبران اب ساتویں جماعت میں تھا ۔پرائمری سے سیکنڈری میں آنے کے باعث ننھے
جبران کی معصومانہ حرکتیں شوخی کی طرف
مائل ہوچکی تھیں اور بڑے بہن بھائیوں کی وجہ سے
کچھ زیادہ ہی ہوشیار تھا ۔ ایک جبران پر ہی کیا منحصر سارے بچے ہی تبدیلی
کے مراحل سے گزرے ۔ کالج کے لڑکے عرفان اور یاسر اب انجینیرنگ یونیورسٹی کے طالب
علم تھے ۔ہبہ اور ماہا انٹر پاس کر کے این ٹی ایس کی تیاریوں میں مصروف تھیں ۔
صبا اور شارق اسکول کی پڑھائی مکمل کرکے
کالج میں بالترتیب سیکنڈ اور فرسٹ ائیر کے طالب علم تھے۔یہ سارے
بچے عظمیٰ آپا کی بہن اسما اور بھائی عارف کی اولادیں تھے ۔اتفاق
سے اسماءکے شوہر ظفر اور عارف کی بیگم شہلا بھی آپس میں بہن بھائی تھے اور یہ
دونوں خاندان ایک ہی گھر میں اوپر نیچے
رہتے تھے۔
عمر اور تعلیم کے مدارج بڑھنے کے ساتھ ہی ان سب کے مزاج ،
انداز اور عادتوں میں بھی نمایاں تبدیلی محسوس کی جاسکتی تھی جسے عظمی آپا کی زیرک
نگاہوں نے ایک نظر میں ہی بھانپ لیا ۔وہ
ایک پہاڑی علاقے میں گرلزہوسٹل کی وارڈن
تھیں اوران کی ذمہ داری کی جھلک ان کے
مزاج میں خوب اچھی طرح رچی بسی تھی ۔ ہر
ایک کے معاملے میں جزئیات تک سے واقفیت ان
کی جاب کا تقاضہ تھاجس کی وجہ سے ہر لڑکی ان سے تعلق محسوس کرتی ۔ جس کی روشنی میں نسل نوکی نہ صرف
جسمانی و ذہنی بلکہ جذباتی ،نفسیاتی اور رو حانی
رحجانات و ضروریات سے بخوبی واقف تھیں۔
ان کی آمد کا پہلا
دن تو تکلفات میں گزر گیا ۔ عمرہ زائرین کو ائیر پورٹ روانہ کر کے اصل معاملات
شروع ہوئے ۔رات کے کھانے پر سب خوش گپیوں
میں مصروف تھے اور پچھلی ملاقات کے خوشگوار لمحات کو یاد کر رہے تھے۔
" اب تو ٹوئنٹی ٹوئنٹی بھی آنے
والاہے …………."
عظمیٰ آپا کے منہ
سے یہ جملہ سن کرسب چونک گئے خصو صا شارق کے ہاتھ سے تو باقاعدہ چمچہ چھوٹ کر سوپ کے پیالے میں جا گرا ۔ اس نے
جبران کو استفہامیہ نظروں سے دیکھا !گویا کر کٹ کے اتنے اہم ایونٹ پر اس کی لاعلمی
پر اس کو گھرکا۔
کالج میں آنے کے بعد بے چارے شارق پر پڑھائی کا
اتنا دباؤ ہے کہ کھیل کے معاملات میں بے اعتنائی دکھانا ا س کی
مجبوری بن گئی ہے۔ اس کی لاپروائی اور کھلنڈرے پن کی وجہ سے والدین
کے علاوہ بڑے بھائی بہنیں ہمیشہ نصیحتوں سے نوازتے ۔اسے بظاہر کھیل سے لاپروائی دکھانی پڑتی لیکن جب وہ
اپنے کمرے میں جب ہوتا تو بلے سے ہوا میں بے آواز شاٹ لگارہاہوتا ۔وہ تو کبھی اس کے
ہاتھ سے بلا چھوٹ کر فرش سے ٹکراتا تو
دونوں منزلوں کے باسی سمجھ جاتے کہ وہ اپنے بلے سے لطف اندوز ہورہا ہے ۔ باقی سب تو مسکرادیتے مگر
صبا اس کے خلاف ایک او ر مواد جمع کر لیتی جو وقت پر بہت اچھی طرح استعمال ہوتا ۔
صبا اور شارق اوپر
تلے کے ہونے کے باعث ایک دوسرے قریب بھی تھے مگر ان میں لڑائی بھی خوب ہوتی ۔ میٹرک میں دونوں کے یکساں نمبر آئے تھے مگر ان
دونوں کا رد عمل بالکل مختلف رہا تھا۔ صبا
نے تو رونا شروع کردیا تھا کہ اتنی محنت کی تو کیا رہا جبکہ اگلے سال شارق بھی
اتنے ہی نمبروں سے پاس ہوا تو کھلکھلا رہا تھا ۔ یہ ایسی بات تھی جس پر صبا خود
حیران رہتی کہ اتنی کم محنت اور توجہ کے باوجود اس کے نمبر اتنے ہی آئے تو کیوں اور کیسے ؟ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اس کو
پڑھائی پر زیادہ متوجہ نہیں کر پاتی تھی جبکہ بقیہ گھر والے اپنا دباؤ جاری رکھنے
میں ہی مصلحت سمجھتے ورنہ تو وہ فیل ہوکر بیٹھے گا تو بھی اطمینان سے ہی رہے گا !!
لہذا اسے اسپورٹس سے محبت کے مظاہرے کو
چھپانا پڑتا ہے سوائے جبران کے ! ان دونوں
کی ذاتی گفتگو کر کٹ سے شروع ہوکر کرکٹ پر
ہی ختم ہوتی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسےاپنی حیرت کو جبران کی طرف منتقل کرنا پڑا ۔
"ارے میں کر کٹ کی
بات تھوڑی کر رہی ہوں …..میں تو شروع ہونے والے نئے عیسوی سال کی بات کر رہی ہوں ۔۔
دو ہفتے بعد ہی تو شروع ہونے والاہے2020
ء ……."
اللہ ہم تو بالکل بھولے ہوئے ہیں کہ نیا سال شروع ہونے والا ہے ……ماہا کی بات کاٹ کر ہبہ بول پڑی
"…. اور وہ بھی کہ اب ٹو تھاؤزنڈ ٹوئینٹی شروع
ہوجائے گا…." دونوں کی آواز میں تجسس کے ساتھ خبریت
تھی ۔
" ہاں تم لوگ پڑھائی
وغیرہ میں اتنے دھت ہو کہ زمان و
مکان سے بے نیاز ہوچکے ہو ۔" پڑھائی
کے مقابلے میں وغیرہ کے لفظ پر جو زور تھا
وہ ان کی تنبیہ کے لیے کافی تھا !دونوں نے سر جھکا لیا ۔عرفان اور یاسر نے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ اگلی بات کیا ہوگی ؟
" ….. اکیسویں صدی بھی انیس سال گزار کر بیسویں سال میں لگ گئی
۔۔تم سب تو اکیسویں صدی کی پیداوار ہو …."عظمیٰ آپا گویا
ہوئیں "….ہماری نسل بڑی منفرد ہے کہ اس نے ہجری اور عیسوی دونوں صدی کوتبدیل ہوتے دیکھا ….." ان کے لہجے میں تھوڑا فخر کا احساس تھا ۔
"….ہاں ہم روز گنتے تھے کہ اب پندرھویں صدی شروع ہونے میں کتنے
دن رہ گئے ہیں ……"
' کیا مطلب خالہ !
آپ کتنی صدیاں دیکھ چکی ہیں ؟ ….." صبا نے
آنکھیں اور منہ دونوں کو آخری حد تک کھول
کر پوچھا ۔
صبا ان کے رکنے پر فورا بول پڑی "….آپ اس وقت کتنے سال
کی تھیں خالہ جان ؟ "
اور اس کا مقصد جان کرعظمیٰ آپا گویا ہوئی
"
پندرھویں صدی شروع ہوئی تو ہم سب اسکول
میں تھے !میں بڑی کلاس میں اور تمہاری امی اور تمہارے ابو چھوٹی
کلاسز میں تھے …" وہ صبااور جبران کی طرف اشارہ کر کے گویا ہوئیں
"….ہم لکھتے 1400 ء
ہیں تو پھر پندرھویں صدی کیوں کہتے ہیں ؟ اور یہ دو ہزار ہے مگر اکیسویں
صدی کہتے ہیں ….؟ “ سوال تو جبران کا تھا
لیکن سب ہی اس کے درست اور مکمل جواب کے
منتظرتھے۔
" صدی کے آغاز پر پہلا سا ل گزرا …..دوسرا ، تیسرا …..اور پھر جب 100 سال
گزر گئے تو پہلی صدی کہلائی پھر 101 شروع ہو تو دوسری صدی کاآغاز ۔۔اور جب عیسائیت
کو دو ہزار سال گزر گئے تو نئے ہزاریے کو
اکیسویں صدی کہا گیا ……" عظمیٰ آپا نے غورکیا سب ہی توجہ سے ان کی بات سن رہے
تھے ……." اور اسی
طرح ہجرت کے 1400 سال گزر گئے تو پندرھویں صدی
شروع ہوئی ……"
''….بھئی ہم تو اگلی
صدی تک نہیں زندہ رہ سکتے ……! ۔ماہا نے حسرت
سے کہا ۔
"…..۔2100 ء
تک جو زندہ رہے گا سنچری بنا لے گالیکن اتنی عمر کہاں ہوگی ؟ " ہبہ نے جواب دیا
"" ہجری سال 1441 ھ ہے نا!....." عرفان نے اپنی معلومات جھاڑی "۔۔۔۔آئندہ 59 سال بعد نئی صدی ہجری شروع ہوگی تو ہم سب 80
/75سال کے ہوں گے …….! "
" نا با با نہ ! اتنی بوڑھی ہوکر کیسی لگیں گے ؟ ‘”…..ماہا نے جھر جھری لی ۔
" …….کوئی بات نہیں ! کوئی پوتے کا پوتا آپ کے چہرے پر استری پھر کر جھریاں ہٹا دے گا …….! " اتنا بد تمیز شارق ہی ہو سکتا تھا اور قریب تھا کہ لڑائی
کا آغاز ہوجاتا جبران نے سوال داغ د یا
جسے تاریخ میں دلچسپی پیدا ہوچکی تھی
" بڑی پھوپھو ! قبل مسیح کیوں کہتے ہیں ؟….."
" …..حضرت عیسیٰ سے پہلے کے زمانے کو بتانے کے لیے قبل مسیح کہتے ہیں اور لکھتے ق
م ہیں ۔"
اب ایسا لگا کہ ان
سب کی آپس میں چپقلش شروع ہوجائے گی کیونکہ کسی نہ کسی کو قبل مسیح کا طعنہ یاد آجاتا جو کبھی دیا گیا تھا لیکن عظمیٰ آپا نے مہلت ہی نہ دی اور اپنے نکتے پر آگئیں ۔
" ……ایک کھیل کھیلتے ہیں ….! " عظمیٰ آپا کے لہجے میں
اتنی مہمیز تھی کہ سب ہی متوجہ ہوگئے ۔آخر وہ بھی تو لگے
بندھے انداز سے ہٹ کر ہی کام کرتی ہیں ،یہ سب کو اندازہ ہے !!
" …..سال 2020ء کے لیے سب اپنی اپنی منصوبہ بندی پر چیوں پر
لکھیں ۔یہ منصوبہ بندی شارٹ ٹرم یعنی صرف 2020 ء کے لیے ہو یا لانگ ٹرم پورے
عشرے کے لیے یعنی 2020 ء سے لے کر 2029 ء ………………" انہوں نے
کھیل کی تفصیلات بتائیں تو سب کی دلچسپی
بڑھ گئی ۔''…..ایک سے زائد منصوبہ بندی بلکہ جتنی چاہیں لکھیں ……"
" ہرا ……" سب نے مشترکہ نعرہ لگایا ۔
….’’اور اس کی شرائط بھی سنیں ۔۔۔۔منصوبہ ایسا لکھا ہو کہ
پہچانا نہ جاسکے کس نے لکھا ہے ؟ جس کا
منصوبہ بے نقاب ہوگیا وہ کھیل سے باہر ….." پہلے تو سب سوچ میں
پڑ گئے مگر بالآخر بخوشی راضی ہوگئے ۔
اگلے رات سب لاؤنج
میں جمع تھے اور کھیل کا آغاز ہوا ۔سب بچے
جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے تھے ۔انہوں نے اپنی اپنی پر چیاں عظمیٰ آپا کے حوالے کردیں
۔ شرکاء تو سات تھے مگر پرچیاں 25 تھیں گویا فی بچہ 3 سے زیادہ منصوبے ہیں ۔عظمیٰ آپا معنی خیز انداز سے مسکرائیں ۔
پہلی پر چی پر لکھا تھا " قرآن کو ترجمے سے پڑھنا ہے ……"
واہ بسم اللہ تو اچھی ہوئی ہے اور ابتدا بھی کہ لکھنے والا بے نقاب نہ ہوا !....''
"….پڑھائی میں بہت محنت کرنی ہے ….!"
" …..انٹر نیٹ کا
استعمال کم کرنا ہے ……."
''….. وقت کی پابندی کرنی ہے ……."
" وعدہ خلافی نہیں کرنی ہے ……."
"…..والدین کا کہنا ماننا ہے ……"
" زبان کی حفاظت کرنی ہے ۔۔"
پر چیاں کھلتی رہیں اور بچوں کی طرح عظمیٰ آپا بھی یکسانیت اور عمومی منصوبوں پر اکتاہٹ محسوس کر
نے لگیں مگردل ہی دل میں بچوں کی
عقلمندی پر داد دے رہی تھیں ۔
" مجھے گھریلو کاموں پر عبور حاصل کرنا ہے ……"
(ارادے اچھے ہیں مگر زندگی گزارنے
کے لیے مہارتیں سیکھنا کسی کے لیے مخصوص
نہیں کیا جا سکتا !)
" میرا پلان ہے کہ ماحولیات کے لیے کچھ کام کروں ….." (اس
پرچی پر سب سوچ میں پڑ گئے ! مستقبل کے انجینیرز کے علاوہ بھی کوئی ہوسکتا ہے مگرواضح نام بوجھنا مشکل تھا!)
" 2020 ء میں مجھے شناختی کارڈ مل جائے تو
ڈرائیونگ شروع کر دوں ……" (سب کی نظریں ماہا
اور ہبہ کی طرف اٹھ گئیں ۔ان میں سے کوئی بھی ہوسکتا ہے !؟اندازہ لگا نے کی گنجائش
نہیں ………….)
" تو ہر وقت
اسٹیرنگ پر بیٹھے رہیں گے ……! " یاسر نے مزاحیہ انداز میں ٹٹولنے کی
کوش کی کہ یہ پلان کس کا ہوسکتا ہے ؟
"….میرا ارادہ ہے کہ فیشن ڈیزائنگ کروں تاکہ معقول ڈریسز دیکھنے کوملے ……..'' (واضح طور پر
صبا کا پلان ہو سکتا ہے مگر وہ ایسے انجان
تھی کہ کچھ کہنا محال تھا!)
'ہاں امی نے کہا ہے کہ اگر نمبر کم آئے تو میرج بیورو والی
آنٹی سے رابطہ کروں گی ……" شارق نے صبا کی طرف منہ کر کے کہا گویا بارود
میں چنگاری پھینکی لیکن صبا اتنی بے وقوف
ہر گز نہ تھی کہ اس کو ترکی بہ ترکی جواب دے کر اس کھیل سے باہر ہوجاتی ! اسی طرح
مختلف منصوبے سامنے آتے رہے مگر کسی واضح فرد کی طرف سے محسوس نہ ہوتے ۔اب چند ہی
پر چیاں رہ گئی تھیں ۔ بچے حیران تھے کہ کھیل کا انجام کیا ہوگا ؟ عظمیٰ آپا کی پٹاری سے کیا نکلے گا ؟
"….میں ان شاء اللہ دو سال میں حفظ قرآن مکمل کرکے میٹرک کا امتحان دوں گا ……" عظمیٰ آپا
پڑھتے ہوئے حیرت زدہ ہوکر مسکرائیں
اور ان کی آواز بچوں کے شور میں دب کر رہ گئی
" جبران …..! جوبو ….! …." سب اس کو چئیر کر رہے تھے اور
وہ کھیل سے باہر ہونے پر شرمندہ سا کھڑا
تھا ۔
" …..اور آج کے کھیل کے فاتح ہیں محمد جبران ۔" عظمیٰ آپا نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا
" ہیں ……ہیں ! یہ تو ایکسپوز ہوگیا ہے " عرفان نے اپنے چھوٹے بھائی کو پیا ربھری بے چارگی سے دیکھا ۔سب حیرت
زدہ تھے کہ شرط ہارنے کے باوجود…….!
" …..جی جناب !! " عظمیٰ آپا نے قطعیت سے کہا
" کسی بھی منصوبے کو بناتے ہوئے وقت سب سے اہم ہے ۔یہ
جو ساری دنیا سمارٹ SMART ) ( کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اس
میں ٹی کس کا مخفف ہے …؟
ٹائم یعنی وقت !
اب بقیہ منصوبوں کو دیکھیں ۔۔سب ارادے ہیں ! کب کرنا
ہے کچھ واضح نہیں !! میرے جبران نے اپنے نیک ارادے کو ایک خاص وقت پر پورا کرنے کی منصوبہ بندی
کی اور اسے ان شاء اللہ کے حصار میں بند
کر کے محفوظ کر دیا ۔
لاؤنج جبران جبران
کے نعروں سے گونج گیا ! ننھا جیت گیا تھا
۔اس کے پاس سمارٹ فون نہ سہی مگر منصوبہ تو اسمارٹ تھا ۔
…………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………
فر حت طاہر
عمدہ تحریر ہے ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ
حذف کریںماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریں