ہم کہ بنے بلاگر...
آج
گستاخ بلاگرز کے حوالے سے سب محتاط ہیں کہ یہ کون سی مخلوق ہے؟ ایسے میں اپنے بلاگر ہونے کااعتراف کرنا گویا اپنے
آپ کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے مترادف ہے مگر جیسا کہ ہمیں علم ہے کہ ہر شعبے میں اچھے
اور برے دونوں طرح کے افراد ہوتے ہیں اور ہر چیز کا غلط اور صحیح دونوں استعمال ممکن
ہے تو بلاگرز بھی اس سے مستثنٰی نہیں! اس وضاحت کے بعد ہم اپنی داستان شروع کرتے ہیں..
غالباً 2003ء کی بات
ہے جب بلاگ کالفظ پہلی دفعہ سنا تھا اور جیسا کہ انسانی فطرت ہے کسی بھی نئے لفظ کو
سن کر پوچھتا ہے کہ کیا ہے؟ بقیہ تفصیل کہاں؟ کب؟ کیوں؟ کیسے؟ کے ذریعے جانتا ہے! یہ سیکھنے کا
قدرتی مرحلہ ہے جس سے گزر کر ہم سب سیکھتے ہیں! تو ہم نے بھی معلومات جمع کرنی
شروع کیں.....بلاگ کیا ہے؟ بلاگ ایک آن لائن
ڈائری ہے۔جس میں ذاتی احساسات اور خیالات تحریر کیے جاسکتے ہیں. کوئی سنسر نہیں کرسکتا
ماسوائے خود! لیکن کرنا ضروری ہے ورنہ اکثر بلاگرز کے خلاف موت کا حکم آ جاتا ہے۔ ڈریے
نہیں! زبان ہو یا قلم قابو میں رکھنے کا حکم بھی ہے اور عافیت بھی اسی میں ہے!مختصر
یہ کہ جو بھی کچھ کہہ سکتا ہے یا لکھ سکتا ہے
بلاگر بن سکتا ہے!
اس خیال نے ہمیں بلاگر بننے کے لیے بے چین کردیا کہ ہم تو
بچپن سے ہی کچھ نہ کچھ لکھنے کے جراثیم رکھتے تھے... لیکن انٹر نیٹ پر اشاعت سے محروم
تھے کیونکہ درمیان میں ٹیکنالوجی حائل تھی جس میں ہم کورے تھے۔ اپنے سے اگلی نسل سے
جو اس میں ماسٹر تھی رابطہ کیا تو جواب ملا بہت مشکل کام ہے!! دراصل یہ بھانجے بھتیجے
قسم کی مخلوق جو پڑھنے میں چور اور لکھنے میں کاہل ہیں۔ درسی کتب کا مطالعہ بھی مجبوری
میں کرتے ہیں اور لکھنے میں اختصار ہی برتتے ہیں۔ لہذا لکھنے اور وہ بھی اردومیں لکھنے کا سن کر کانوں
پر ہاتھ رکھ لیا۔بلاگ کے لیے ہماری اور ہم سے زیادہ بہن کی تڑپ کی وجہ کچھ یوں تھی
کہ ان کی ا یک دوست اپنے بلاگ کے ذریعے اسلام اور پاکستان کے بارے میں زہر اگل رہی
تھیں اور ہم اس کا جواب دینے سے قاصر تھے۔بے بسی کے گھونٹ پی کر رہ جاتے!
اسی جستجو کے دوران کا ایک منظر کچھ یوں ہے کہ ہم دونوں
بہنیں ایک قریبی نیٹ کیفے میں اس طرح داخل ہوئے کہ دونوں کے کندھے سے ایک ایک بچی لٹکی
ہوئی تھی۔ہمیں دیکھ کر کیفے کا مالک اس افراتفری میں اپنے میزونائین فلور سے باہر نکلا
کہ سیڑھیوں کے بجائے براہ راست زمین پر! گھبراہٹ میں اس کے منہ سے نکلا ” نہیں باجی
یہاں بلاگنگ نہیں ہوتی...“ مایوس ہوکر ہم بھی
باہر کو نکلے اس لڑ کے کی ہونق شکل آج بھی
نظروں میں گھومے تو بے اختیار مسکراہٹ آجاتی ہے ۔بعد میں معلوم ہوا کہ محلے کا ہی لڑکا
تھااور ہمیں پہچان گیا تھا...اس واقعے کو بتانے کا مقصد بلاگنگ کے لیے اپنی بھاگ دوڑ
کی ایک جھلک دکھلانا ہے۔بہرحال یہ جدو جہد رنگ لائی جب ہماری جان پہچان کے کچھ برادران
نے ہم سے بلاگ لکھنے کی در خواست کی۔یہ وہ لوگ تھے جو بلاگ تو بنا بیٹھے تھے مگر اس
کا پیٹ بھرنے کے لیے نہ وقت تھا نہ صلاحیت! یوں باہمی ہم آہنگی سے ہماری بلاگنگ شروع
ہوگئی۔
ہم اس وقت تک اردو کمپوزنگ سے بھی نا بلد تھے لہذا وہ ہمارے ساتھ اتنا تعاون کرتے کہ بس آپ اسکین
کر کے بھیج دیں باقی ہم خود کرلیں گے بلکہ اس حد تک کہ مختلف اخبارات اور میگزین میں
شائع ہونے والے ہمارے مضامین کو وہیں سے اٹھا کر بلاگ کو حصہ بنادیتے۔ جی ہاں لکھنے
والوں کے لیے بلاگنگ بہترین ذریعہ ہے۔ اخبارات اور میگزین کے صفحات محدود اوراپنی پالیسی
کا شکار ہوتے ہیں جبکہ بلاگنگ امکانات کی ایک نئی
اور وسیع دنیا ہے۔
جس دوست کو جواب دینے کے لیے ہم نے بلاگنگ شروع کی تھی وہ
ہم سے پہلے ہم پر حملہ آور ہوگئیں ! جی ہاں! انٹر نیٹ کی دنیا کچھ ایسی ہی ہے۔ہم کچھ
ہی کا جواب دے پاتے مگر وہاں موجود ہمارے دیگر بھائی اس بے چاری کی جان ضیق کر دیتے..کچھ عرصہ گزرا اور وہ دوست ایک ٹریفک حادثے میں ختم
ہوگئی...آ ہ! ابھی توبہت سے جوابات دینے باقی تھے.! بہت سی بحثیں ادھوری تھیں..وہ جس
کی نیکی اور نمازی ہونے کے ہم گواہ تھے نہ جانے کیوں اتنی تلخ ہو چکی تھی اور شاید
اسی لیے دنیا سے روٹھ گئی...
.سوال
پیدا ہوتا ہے کہ آن لائن مضمون اور بلاگ میں کیا فرق ہے؟ ایک ہی چیز ہے یا علیحدہ چیزیں ہیں؟
معمولی سے فرق کے ساتھ دونوں ایک ہی ہیں کوئی خاص اصول نہیں
ہے جو ان دونوں کو جدا سمجھے سوائے اس کے کہ ٓن لائن مضمون میں زیادہ گہرائی اور معلومات
ہوتی ہے اور یہ ویب سائٹ لائبریری میں محفوظ ہوتے ہیں اور اس کے قارئین بھی مخصوص ہوتے
ہیں جبکہ بلاگ میں بہت زیادہ معلومات اور گہرائی نہیں ہوتی۔یہ بلاگزکے عنوان سے محفوظ
کیے جاتے ہیں۔ اس کے پڑھنے والے عموماً مخصوص نہیں ہوتے بلکہ یہ عنوان دیکھ کر پڑھتے
ہیں اور آگے شئیر کرتے ہیں۔ ہاں! البتہ یہ جذبات کو مہمیز کرنے کا کام بخوبی کرتے ہیں۔
مثلا ایک دفعہ سقوط ڈھاکہ پر بلاگ لکھا جو ہماری یاد داشت پر مشتمل تھا۔ اس کو پڑھ
کر کئی نوجوان خواتین نے کہا کہ آپ کا بلاگ پڑھ کرہمیں اس بارے میں جاننے کی جستجو
ہوئی تواس موضوع پر دیگر مضامین پڑھے پھرہمیں اس معاملے سے آگاہی ملی۔ گویا آپ کہہ
سکتے ہیں کہ بلاگ مطالعے کی پیاس بڑھاتے ہیں! جس طرح کھانے میں چٹنی،اچار اور سلاد وغیرہ بھوک کو چمکا تے ہیں۔بلاگ سنجیدہ مطالعے کی
طرف راغب کر واسکتے ہیں۔
2007 ء
میں فیس بک نئی نئی وارد ہوئی تو مائکرو بلاگنگ کا آغاز ہو ا۔یعنی کم الفاظ میں اپنی
بات کہنا! فیس بک کے بارے میں ہمیں بھی تحفظات تھے مگر چاہنے اور نہ چاہنے کے باوجود
اس کا حصہ بن گئے۔اس وقت فیس بک پر بڑی اور لمبی تحریر لکھنے کی سہولت دستیاب نہ تھی۔
چنانچہ ہم اس پر نوٹس کے عنوان سے اپنی تحاریر لگا دیا کرتے تھے۔اور مختصر الفاظ میں
اپنا مافی الضمیر ادا کر دیتے۔اور دلچسپ بات یہ کہ جب ہمیں کم الفاظ میں دل کی بھڑاس
نکالنے کی پریکٹس ہوگئی تو فیس بک نے محدود
الفاظ کے بجائے لامحدود الفاظ لکھنا متعارف کروادیا۔
(ویسے
ہمارا مشاہدہ ہے کہ فیس بک پر آنے کے بعد بہت سوں کوچپ لگ جاتی ہے! جی ہاں! کچھ تو
یہاں کی سر گر میاں اورپھر جب کچھ کہے بغیر کام چل جاتا ہے توالفاظ خرچ کرنے اور محنت
کرنے کی کیا ضرورت ہے! یعنی فیس بک کی پالیسی نے لوگوں کو کم گوئی کی طرف مائل کر دیا
مگر کیا یہ مغالطہ درست ہے؟) ۔۔۔اور پھر ایک دن فیس بک نے محمدﷺ کے خاکے بنانے کا انعامی
مقابلہ کا اعلان کر دیا۔ہمیں اس سے نکلنے کا ایک جوازمل گیا اور ہم احتجا جا اس سے
الگ ہوگئے۔ یہ مئی 2010ء کی بات ہے فیس بک بائیکاٹ کے موضوع پر ہمیں اظہار خیال کی
دعوت ملی چنانچہ ہم نے دو تین پیرا گراف میں اپنا موقف بیان کیا۔لیجیے یہ ہمارا بلاگ
تیار ہوگیا!
عزیز قارئین! ہماری اب تک کی تحریر سے آپ نے جان لیا کہ
بلاگ کیا ہے؟ اور کیسے بن جاتا ہے؟ آئیے!اس معلومات کو عملی شکل میں ڈھالتے ہیں!
ہمارا ذہن ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے۔ اس وقت جو سوچ
رہے ہیں اسے کاغذ پر قلم سے بکھیر دیجیے! یقینا بے ربط اور بے تکے سے خیالات ہوسکتے
ہیں، کچھ ناگفتنی بھی ممکن ہے۔ اب ان کو ایک ربط اور توازن دے دیں! اب آپ معصومیت سے
یہ نہ کہہ دیں کہ مجھے تو لکھنا ہی نہیں آتا!
کئی سال پہلے ایک محتر مہ نے ہمیں فون کیا اور بیس منٹ کی گفتگو میں وہ ہمیں
مختلف مسائل کے بارے میں لکھنے کا کہتی رہیں۔ ان کی بات مکمل ہوئی تو ہم نے کہا کہ
آپ خود کیوں نہیں لکھتیں؟فرمانے لگیں؛ میں بھلا کیسے لکھ سکتی ہوں؟ ہم نے ان کی تعلیم
دریافت کی۔ فخر سے بولیں بی اے کیا ہے اگر شادی نہ ہوتی تو ایم اے بھی مکمل کر لیتی...تو
ہم نے عرض کیا: آپ نے اردو اور انگلش لازمی میں ضرور مضمون اور خط لکھے ہوں گے... ہم
نے حوصلہ دیا کہ جس کے پاس احساسات ہوں اسے ضرور منتقل کرنا چا ہیے۔ اب آپ ایسا کریں
اپنے خیالات کو آواز کی شکل میں ریکارڈ کرلیں پھر اسے سن کر تحریر کریں...پھر موضوع
کے لحاظ سے اسے حسن تر تیب دے دیں...پھر کبھی ان کا فون تو نہ آیا مگر اکثر ان کی تحریر
نظر سے گزرتی ہے۔معلوم نہیں ہمارے فارمولے سے فائدہ اٹھا یا یا نہیں؟ بہر حال یہ نسخہ
آپ بھی آزما سکتے ہیں!
لکھ لیا! اب مسئلہ اشاعت کا ہے! مگر پہلے یہ دیکھیں کہ زبان
کون سی ہے؟ ظاہر ہے اردو یا نگلش! مگر انٹر نیٹ کی زبان یونی کوڈ ہے۔بہت تھوڑی سی محنت
کرکے آپ سیکھ سکتی ہیں۔جی ہاں! ہم نے صرف دودن میں اردو کمپوزنگ سیکھ لی تھی۔ جوش میں
آکر کئی بہنوں کو سکھا نے کی کوشش کی مگر انہوں نے حیلے بہانوں سے کوڑھ مغزی کو ثبوت دیا۔بات سمجھیں
نا! کوئی بھی کام سیکھنے کا سیدھا سادا مطلب
ہے کہ کام کرناپڑے گا! کام چورافراد کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ہرکام کا کوئی آسان اور
شارٹ کٹ طریقہ دریافت کر لیتے ہیں مگر اس معاملے میں وہ رسک نہیں لیتے جب اپنی جگہ
سے ہلے بغیر ریمورٹ سے تفریح مل سکتی ہے تو کیوں اپنے جسم کو پسینہ پسینہ کیا جائے!
کیونکہ بلاگ تحریر اور ٹیکنالوجی کا مجموعہ ہے۔ اس لیے اس
میں دو نوں طرح کی مہارت درکار ہے۔انٹر نیٹ کے اس دور میں معلومات ہماری انگلیوں کی
گرفت میں ہوتی ہیں لہذا اس سے بھی بیش بہا فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کو لکھنے
پر عبور نہیں تو کوئی مسئلہ نہیں! آپ تصویری بلاگ بنا سکتے ہیں مثلاً کسی خاص موضوع،
مقام، کی تصویریں اپ لوڈ کردیں ہاں مگر اس پر ایک جملہ لکھنا نہ بھولیں! وہی کیا؟ کون؟
کہاں وغیرہ وغیرہ۔اس کے علاوہ ویڈیو بھی بنا کر بلاگر بن سکتے ہیں۔ یا پھر مختلف تبصرے
ایک جگہ جمع کر کے اسے بلاگ کی شکل دے دیں۔بھئی کھانے، کپڑے، سجاوٹ، ہر چیز میں جدت
ڈھونڈتے ہیں۔ نت نئے اسٹائل دریافت کرتے ہیں تو یہاں بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار
کیا جاسکتا ہے۔ہم نے اپنے تازہ ترین بلاگ میں ایک ناول پر تبصرہ لکھا اور اس میں کئی
جگہ اپنے الفاظ کے بجائے ناول کے اسکرین شاٹ لے کر لگادیے۔یہ ایک مزیدار اور دلچسپ
تجربہ تھا۔
یعنی بلاگ کی ڈھیروں اقسام
اورطریقے ہیں: ایک غیر ملکی جائزے کے مطابق فیشن پر بلاگ سب سے زیادہ تلاش کیے گئے۔
اس کے علاوہ کھانے، جسمانی خوبصورتی، سفر، سیاست، صحت وتندرستی، گھریلو ٹوٹکے، موسیقی،
شادی بیاہ، گھر کی سجاوٹ بھی سر فہرست ہیں۔ کچھ یہ ہی
رحجان ہمارے ہاں بھی دیکھا
جا سکتا ہے۔ہر کوئی اپنی دلچسپی، مشاغل اور پیشے کے لحاظ سے بلاگ بنا سکتا ہے۔
ایک اور سوال ذہن میں آتا ہے کہ ایک بلاگ سے دوسرے کا دورانیہ
کتنا ہو؟ اس کا بھی کوئی خاص اصول نہیں ہے۔ضرورت اور دستیابی کے لحاظ سے تحریر کیے
جاسکتے ہیں۔بس یہ دھیان رہے کہ وقفہ اتنا لمبا نہ ہو کہ آپ کے قاری / ناظرین دوسرے
بلاگز کا رخ کر لیں۔ہنگامی نوعیت کے بلاگز بھی توجہ کھینچتے ہیں۔
آپ کی تحریر کتنے افراد تک پہنچے گی؟ چونکہ انٹر نیٹ کی
دنیا ورچوئل ہے اس کے بارے میں کچھ مبالغہ آمیز تاثر دیا جاتا ہے کہ آپ کی تحریر اتنی
پسند کی گئی (یہاں ٹھینگا پسندیدگی کانشان سمجھا جا تا ہے)۔جبکہ اس کو ناپنے والے پیمانے
بھی اتنے حقیقی نہیں ہوتے۔ہماری ایک دوست نے سیرت محمدﷺ
پر بلاگ لکھا جس کی پسندیدگی 27ہزار تک پہنچی۔ویسے تو اس موضوع پر کروڑوں پسندیدگی
بھی کم ہے مگر پھر بھی یہ ایک سنگ میل تھا جو اس نے عبور کیا،جس کی مبارکباد پر دوست
کا کہنا تھا کہ میں نے جس سے پوچھا اس نے پڑھے بغیر ہی لائیک کیا ہے۔یہ بالکل ایسی
ہی بات ہے جیسے ایک اخبار یا میگزین کی سرکولیشن اس کے قارئین کی تعدادسمجھی جاتی ہے۔جبکہ
اصلی قارئین اس سے کہیں زیادہ یا پھر کم ہوسکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح پسندیدگی کی تعداد
بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔پھر بھی ایک امکان یہ ہے کہ آپ کی تحریر اشتراک ہوکر کہیں سے
کہیں پہنچ جاتی ہے ہاں اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک اچھے بلاگ کی شرائط پر پورا اتر
تا ہو...یعنی مواد اور اسلوب۔وہی جو اچھی تحریر کے لیے ضروری ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فر حت طاہر
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں