گاڑی میں بیٹھنے سے قبل پلٹ کر شادی ہال کے بلوریں
دروازے پر لگے پوسٹر پر نظر ڈالی اور اپنے موبائیل کی ختم ہوتی چارجنگ کو بغور
دیکھ کر مایوسی سے گاڑی میں بیٹھ گئی!
فاسفورس کلر سے لکھا گیاRamzan Welcome کا
پوسٹر ڈوبتے سورج کی کرنوں میں چمک رہا تھا جو گاڑی کے آگے بڑھنے کے ساتھ ہی ہماری
بصارت سے دور ہوتا گیا اور ایک یاد گار لمحہ بن کر حافظے میں محفوظ ہوگیا۔
یہ ۷۱ / مئی ۷۱۰۲ء کی شام کا ذکر ہے اور
آج ٹھیک ایک سال بعد اپنی ڈائری کے اوراق پر درج اس محفل کی روداد دیکھ کر یہ بلاگ
لکھا جارہا ہے جیسا کہ اکثر سوشل میڈیا خصوصا فیس بک سال بھر پہلے کی سرگرمی آپ کے
سامنے تازہ کر کے پیش کرتی ہیں!
مارچ2017 ء میں ذمہ داری اٹھاتے ہی جیسے سر گر میاں منتظر تھیں جن میں سب سے بڑی تقریب
استقبال رمضان کی ہوتی ہے۔اس کے انعقاد کے لیے مشاورت کی۔تقریبا ۷ مربع میٹر پر پھیلے
علاقے میں تقریب کہاں رکھی جائے کہ سب بآ سانی پہنچ سکیں اور بات رقبے سے بھی
زیادہ بندوں کی گنتی پر منحصر ہے کہ ایسی جگہ ہو جس میں تمام شرکاء سہولت سے بیٹھ
سکیں۔کسی شادی ہال یا بینکوئٹ میں ہونا چاہیے! یہ تھا مشورہ جوبڑی شدت سے آیا۔
ہال کی بکنگ سے لے کر تقریب کے اختتام تک کے جملہ مراحل
کا بخیر و خوبی تکمیل پاجانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ایسا پروگرام جس میں ریہرسل کی گنجائش نہ ہو ایک تلوار کی طرح منتظمین خصوصا ناظمہ کے سر پر
لٹکتا رہتاہے۔کچھ ایسی ہی صورت حال سے ہم گزر رہے تھے۔ اپنے بجٹ پر قابو پاتے ہوئے بہر حال بینکوئٹ نہ سہی
ایک شادی ہال طے ہوگیا جو ایک معروف شاہراہ پر ہونے کی وجہ سے اس خطرے سے باہر تھا
کہ لوگ کیسے پہنچیں گے؟ مگر بہر حال مذاق ضرور بنا کہ شادی ہالز کی لائن میں جو سب
سے بد حال ہے وہیں انتظام کیا گیا ہے۔تفنن بر طرف کچھ ایسا برا بھی نہیں تھا مگر
ظاہری چمک سے ہم اس درجہ متاثر ہیں کہ بنتی نہیں بادہ و ساغر کہے بغیر...!
جگہ کے انتخاب سے بھی بڑا مرحلہ پروگرام کا مواد اور تر
تیب ہے جس پر غور و فکر اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی تقریب کا مینو! فارمٹ تو تقریبا
طے ہی ہے ہاں مناسب افراد کی دستیابی ایک مرحلہ ہے۔ اناؤ نسمنٹ،تلاوت، تذکیر،، قرارداد اور دعاکے
لیے افراد کا چناؤ اس طرح ہوکہ تنوع کے
ساتھ جدت بھی نظر آئے۔حاضرین کی توجہ ہی نہ کھینچے بلکہ ان کو عمل پر بھی آمادہ
کرے! اس میں عمومی فارمولاتو یہ ہے آزمودہ
اور مستند افراد سے ہی مختلف حصے کروائے جائیں تاکہ ناکامی کا رسک کم سے کم
رہے! جبکہ نسبتا ذرا زیادہ چیلنج سے بھرپور یہ سوچ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ نئے افراد کی دلچسپی پروگرام میں شامل کرنے کے لیے
انہیں ذمہ داری دی جائے! چونکہ ہمارا نیا معاملہ تھا لہذا مزاج کے بر خلاف ملے جلے
رحجان پر توجہ رہی۔جدت پسندانہ اقدامات مزید کسی اور پروگرام کے لیے رکھ چھوڑے۔
پھر پروگرام پیش کرنے میں صرف اسٹیج تک معاملہ نہیں
رہتا بلکہ اسے کامیاب بنانے کے لیے دیگر شعبوں کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔استقبالیہ سے
لے کر تزئین و آرائش تک! اطلاعات سے لے کر نظم و ضبط،پانی سے لے کر تواضع تک، گوشہ
اطفال سے لے کر بک اسٹال تک! ٹرانسپورٹ سے لے کر ٹیکنیکل مدد تک! اور پھر کچھ
افراد نگرانی اور مشاورت کے لیے مختص کیے۔ اس کی توجیح یہ تھی کہ ہمارا پروگرام
چونکہ عام دعوتی ہے تو کچھ افراد اور تنظیمیں اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر
سکتی ہیں جیسا کہ ایک آدھ دفعہ مشاہدہ کیا گیا تھا۔ بد نظمی اور ہنگامی صورت حال
سے بچنے کیے حفظ ما تقدم کے طور پر جن بہنوں کو یہ ذمہ داری دی گئی انہیں اس کی
بریفنگ دی گئی!
تقریب کی صبح یعنی گیارہ بجے کے قریب رضا کار بہن سمیرا
کے ساتھ جاکر ہال کا معائنہ کیا اور انتظامات میں جزوی تبدیلی کی۔بک اسٹال کی
کتابیں رکھوائیں۔ڈیپ فریزر کھلوا کر اس میں جوس کے پیکٹ رکھوائے۔گوشہ اطفال کے لیے
تحائف کی خریداری کی۔ انتظامات پر اطمینان
کے ساتھ ساتھ دل میں ایک خوف بھی تھا کہ گر میوں میں تو رات کو کھلے آسمان
تلے بیٹھنا اچھا لگتا ہے مگر مئی کے مہینے میں دھوپ کی شدت اور ۴ سے ۶ بجے سہ پہر اوپرلگی چھت
ناکافی ہوگی! اس لحاظ سے کرسیوں کی ترتیب میں رد و بدل کیا،پنکھوں کی تعداد میں
اضافہ کیا۔اس سارے معاملے میں سمیرا کی ذہانت اور مہارت کا قائل ہونا پڑتا ہے
ماشاء اللہ!
پروگرام کا آغا رز بڑی سہولت سے ہوا۔ تمام ذمہ داران
اپنے طور پر وقت کی پابندی کے ساتھ اپنی ذمہ داری نباہنے کو موجود تھے۔ عنبریں اور
ثوبیہ استقبالیہ پر موجود تھیں تو آمد و رفت اور اطلاعات کا فر یضہ صالحہ،سروری
قدیر کے ساتھ انجام دے رہی تھیں! نظم و ضبط کی ذمہ داری طیبہ شاکر اور صبا کوثر کے
ذمہ تھی۔تزئین و آرائش کی چنداں ضرورت نہ تھی مگر کچھ بینر وغیرہ لگانے تھے جو
سمیرا کے ساتھ مل کر ہم نے اسٹاف کی مدد سے خود ہی لگوا دیے تھے۔ تواضع اور پانی
کی ذمہ داری فر حانہ اور نزہت کی تھی اور اپنی ٹیم انہوں نے خود ہی بنالی تھی جو
نہایت پھرتی اور خوش اسلوبی سے سب کچھ سنبھال رہی تھیں۔ کتابچہ کی ترسیل شہلا
لقمان کے ذمہ تھی وہ بھی کچھ رضا کاروں کے
ساتھ مستعد تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ سینکڑوں شرکا ء سے کے الیکٹرک کے خلاف
پیٹیشن کے لیے دستخط بھی کروالیے گئے۔یعنی ایک بہت بڑا کام ٹیم ورک کی وجہ سے
منٹوں میں کروا لیا گیا۔ گوشہ اطفال میں بچے بہت تن دہی سے مصروف اور مطمئن تھے تو
دوسری طرف آمنہ خاتون اورشکیلہ، صالحہ اور سدرہ کے ساتھ بک اسٹال سنبھالے بیٹھی
تھیں۔ ملبوسات کا اسٹال بھی موجود تھا جہاں بعد از پروگرام خوبشاپنگ ہوئی۔خوشی کی
بات یہ ہوئی کہ جس دھوپ سے ہم ڈر رہے تھے وہ بادلوں میں چھپ گئی اور خوشگوار موسم
سے پروگرام کا لطف دوبالا ہوگیا۔الحمدللہ!
اسٹیج پر نظامت کے فرائض
طیبہ اکرام اداکررہی تھیں جبکہ مقررہ تھیں افشاں ناصر جو ماہ مبارک کے حوالے سے
جذبوں کو بیدار کر رہی تھیں۔ پروگرام کا آغاز منیزہ احسان کی تلاوت سے ہوا۔نعت
ریطہ طارق نے سنائی اور پروگرام کے اختتام پر قرارداد بھی منظور کروائی۔دعا سعیدہ
اشرف نے کروائی۔بحیثیت میز بان راقم نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔کھجور اور جوس
کے پیکٹ سے ان کی تواضع کی گئی۔ایک کامیاب پروگرام کی خوشی اطمینان بن کر منتظمین
کے چہروں سے جھلک رہی تھی! کشادہ جگہ کی وجہ سے بچے بھی لطف اندوز ہورہے تھے۔
یہ تھی اس پروگرام کی تفصیل جس سے مضمون کا آ ٓغاز ہوا
تھا ۔اس میں جو منظر کشی کی گئی تھی اس کو ریکارڈ نہ کرنے کا افسوس کچھ ایسا وزنی
نہیں تھا کیونکہ اسٹیج، تیاری، گوشہ اطفال
اور پوسٹرز کی ڈھیروں تصاویر تھیں لیکن آج کے دور میں موبائل کیمرے کی وجہ سے
تصاویر کے ڈھیر الفاظ کے بغیر کوئی اہمیت
نہیں رکھتے!
ٓآئیے! اب عنوان کے دوسرے حصے یعنی مئی 2018 ء کی طرف بڑھتے ہیں! جی
ہاں! سورج کے گرد زمین کی گردش مکمل ہونے سے پہلے ہی رمضان 1439ھ کی آمد یقینی تھی لہذا
تیاریاں بھی کچھ پہلے ہی شروع ہوگئیں۔بقول منیر نیازی ایک اور دریا کا سامنا تھا.......!
اس دفعہ کچھ مختلف چیلنجز تھے جن کی روشنی میں پروگرام
کے انعقاد کے فیصلے کرنے تھے۔سب سے پہلے تو مشاورت یہ کی کہ پروگرام دو مختلف
جگہوں پر رکھا جائے تاکہ دونوں جگہ پر قریبی مقامات سے شرکت یقینی ہوسکے! یعنی
نزدیکی بلاکس کی ایک جگہ تقریب ہو! سب نے اس سے اتفاق کیا بہر حال تاریخ اور جگہ
کے تعین میں کچھ گو مگو کی کیفیت رہی مگر بالآخر طے ہوگیا۔ پہلاپروگرام بہن کنول
کے گھرجبکہ دوسرا عثمان اسکول کیمپس X میں
رکھا گیا۔دو مختلف دن، دو جگہوں کے لیے انتظامات کرنا اور کروانا آسان کام نہیں
تھا مگر مشکل کام میں مزہ بھی بہت ہے! 9 اور10 / مئی بالترتیب 22 اور 23شعبان کو پروگرام طے
ہوئے۔ مالی اور انتظامی دباؤ کم ہونے کے باعث پچھلے سال کی بہ نسبت پر سکون کیفیت
رہی حتی کہ تقریب کے انعقاد کی گھڑی آپہنچی۔
پہلا پروگرام جس
گھر میں رکھا گیا اس کا لاؤنج ہی وسیع نہیں بلکہ مکینوں کے دل بھی کشادہ
ہیں۔چنانچہ جب مقررہ وقت پر ہم پہنچے تو گھروالے خوشدلی سے ستقبال کو بڑ ھے۔
ڈائننگ ٹیبل پر بک اسٹال سج گیا جس کی نگرانی طیبہ اکرام کے پاس تھی جبکہ سنٹر
ٹیبل پر ستقبالیہ بنا دیا گیا! واہ کیا
اپنائیت بھرا خوشگوار ماحول ہے!ملحقہ ڈرائنگ روم میں گوشہ اطفال بن گیا جہاں نجم
السحر بچوں کے ساتھ تن دہی اور بھرپور
انداز سے مصروف تھیں۔ اناؤنسمنٹ کی ذمہ داری بالکل نئے چہرے شفق کو دی گئی تھی جس
نے بخوبی حق ادا کرتے ہوئے تازگی بھرا احساس دیا۔ تذکیری گفتگو افشاں نوید کی
تھی۔جن کو سننے کے سب مشتاق تھے۔ عصر کی اذان نے محویت کو توڑاتو نماز کے لیے
شرکاء کی بے چینی کے مدنظر پروگرام مختصر کرنا پڑا۔ عائشہ نے ہاتھ میں لہراتی
قرارداد دکھائی تو ہم نے اسے اپنے اختتامی کلمات میں سمیٹ لیا کیونکہ وقت کی
گنجائش بالکل نہ تھی۔میزبان بہن کنول نے دل سوزدعا کروائی۔ گرم موسم میں خوش رنگ
جام شیریں نے سب کا دل لبھایا۔کھجور کا پیکٹ اور کتابچے ہاتھ میں لیے، کتابوں کی
خریداری کرتے شرکا ء اپنے اپنے گھروں کو لوٹے۔ اس پروگرام میں ناظمہ زون افشاں ناصر بھی اپنی ٹیم کے ساتھ شریک ہوئیں۔
اگلے دن کا استقبال رمضان چونکہ اسکول میں تھا
لہذاتھوڑا سا فارمل انداز تھا۔ چیلنج بڑا
یہ تھا کہ فعال افراد کار کی اکثریت کل ہی آ چکی تھی اور جو آج بھی آئے وہ ذرا تھکے
ہوئے تھے مگر الحمد للہ کارکر دگی میں کوئی فرق محسوس نہ ہوا۔ایک خوش آئند بات یہ
تھی کہ شرکاء ایک ہی کال پر موجود تھے یعنی جس کو بلا یا اس محفل میں حاضر ہوگیا
اور کیوں نہ ہوتا فرحانہ بہن کی دعوت ہوتی
ہی اتنی جاندار ہے! ویسے آج کا پورا پروگرام ان ہی کا مرہون منت ہے۔ سجاوٹ سے لے
کرانتظامی امور تک سب جگہ یہ ہی حاوی رہیں۔تواضع کے لیے گھر میں ہی بنا کیری کا شر
بت خواتین کی دلچسپی کا موضوع بن گیا۔ اکثر یت پینے کے بعد اس کی تر کیب پوچھتی
پائی گئی۔کھجوراور کتابچوں کی ترسیل آج بھی طیبہ شاکر کے پاس تھی جو انہوں نے بہت
خوش اسلوبی سے انجام دی۔ آج کی مقررہ تھیں حنا رضوان! اسکول ٹیچر ہونے کے ناطے ان
کی گفتگو وقت کی پابندرہی! مواد مختصر مگر جامع! بک اسٹال کے لیے نگرانی طیبہ
اکرام کی ہی تھی جو انہوں نے نجم السحر کی مدد سے بخوبی نبھائی۔آج کتب کے ساتھ
ملبوسات کی خریداری بھی خوب رہی۔ دعا کے ساتھ پروگرام کا اختتام ہوا۔
آج بچوں کی
تعدادکم تھی اور ویسے بھی اسکول کے لان میں جھولے کی موجودگی میں بچوں کو اور کسی
چیز کی ضرورت نہیں ہوتی! یہ بچپن کی سب سے دلچسپ سر گرمی ہے!اسکول اسٹاف نے بھرپور
معاونت دی۔ صالحہ اور سعیدہ دونوں دن ہمہ تن آمد و رفت کی نگرانی پر مامور تھیں
اور بلاشبہ بہت محنت اور توجہ سے اپنی ذمہ داری نبھائی۔
معزز قارئین!
مئی 2017ءسے شروع کی گئی روداد بالآخر 2018ءمیں اختتام پذیر ہوئی۔
ایک ہی کام کو مختلف انداز سے کرکے دلچسپ مشاہدات سامنے آئے۔آپ چاہیں تو اس میں سے
اخذ کر سکتے ہیں!آپ اس روداد کی اشاعت کا مقصدنہیں سمجھ پارہے ہوں گے!
ہر سر گر می در اصل ایک
مرتب تاریخ ہوتی ہے جسے ہم اگلی نسل کی رہنمائی کے لیے پیش کرتے ہیں! اکیسویں صدی
کے دوسرے عشرے میں تقریبات کیسے منعقد ہوتی تھیں؟
رہا سوال کہ آنے والوں کواس سے کیا سروکار؟ نہ ہو کوئی دلچسپی مگر ہمیں تو اپنے اطمینان کے
لیے اللہ کی بارگاہ میں اپنی چھوٹی چھوٹی کاوشوں کا ریکارڈ ررکھنا ہے نا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فر حت طاہر
درست سوط ہے بالکل، ہمیں اس لحاظ سے اپنی یاد داشتیں مرتب کرنی چاہییں۔
جواب دیںحذف کریںبالکل درست کہا. یہ ایک دستاویز بن جاتی ہے اگلوں کی رہنمائ کے لیے ..
جواب دیںحذف کریں