میڈیا کی حقیقت :
یوں تو انسان اپنی زندگی کے کسی بھی لمحے کو یاد کرے والدین اس میں ضرور موجود ہوتے ہیں مگر آج بالخصوص مجھے اپنے والد بہت یاد آئے..وہ اپنے عہدے اور علم کی وجہ سے اکثر ٹی وی پروگرامز میں مدعو کیے جاتے جس میں شرکت سے وہ معذرت کر لیتے ..بات صرف ان کی درویشی کی نہیں تھی بلکہ میڈیا کے بارے میں ایک خاص موقف تها جو آج سو فیصد درست ثابت ہورہا ہے! انہوں نے ہمیں یہودی پروٹوکول کی بابت اس وقت بتا یا تھا جو کم عقلی کے باعث ہمیں اس وقت سمجھ نہ آتا تھا
ان کے ساتھی ، احباب حتی کے شاگرد تک ضرور اسکرین پر باقاعدہ یا بے قاعدہ ضرور چمکتے..ہم بچوں کو ارمان ہوتا کہ ہم بھی فخر کریں کہ ہمارے ابا ٹی وی پر آتے ہیں مگر ان کے احتراز کی وجہ سے اس شو بازی سے محروم رہتے..
ایک دفعہ جب ضیا الحق نے نفاذ شریعت کا آرڈیننس جاری کیا تو بر بنائے عہدہ فیکلٹی آف ڈین ان کو ضرور اس پر تبصرہ کر نا تھا. وہ اس شرط پر تیار ہوئے کہ انٹرویو ان کے آفس میں آکر لیا جائے وہ ٹی وی اسٹیشن نہیں قدم رکھیں گے .
جب نشر ہوا تو چونکہ ویڈیو ریکارڈنگ کی اتنی سہولیات نہیں تھیں لہذا ہم سب اسکرین پر آنکھیں گاڑے دیکھنے پر مجبور تھے کہ ری پلے کا کوئی تصور نہ تھا. مجھے یاد ہے وہ ناخوش سے تھے کہ ان کی بات کو جوں کا توں پیش کرنے بجائے ٹوئسٹ کیا گیا تھا .یعنی میڈیا کے بابت ان کے خدشات درست تھے. اور یہ ہی وہ فکر تھی کہ انہوں نے اپنی زندگی میں جو آخری کتابیں خریدیں ان میں سے اس موضوع پر بھی موجود تھیں ..یعنی وہ اس کے بارے میں تحقیق کرنا چاہتے تھے. .آج جب میڈیا کے چہرے سے آخری قلعی بھی اترگئی تو مجھے یہ کتاب یاد آئی :
.اس کی خریداری کے تھوڑے عرصے بعد ہی وہ بیمار ہوئے اور دنیا سے چلے گئے مجھے یقین ہے اگر زندگی انہیں مہلت دیتی تو وہ چینلز پر اپنی تحقیق سے ضرور متنبہ کرتے .!!
9/11
کے فورا بعد خریدی گئی اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے چینلز کی بارش
کے فورا بعد خریدی گئی اس کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے چینلز کی بارش
!!کی گئی ... آہ میری ناسمجھ قوم ! ترقی کا مطلب نہیں
سمجھ پائ !!
یہ بلاگ قندوز افغانستان میں قرآن کی تقریب اسناد پر امریکی بمباری میں 100 سے زیادہ حفاظ اور علماء کی شہادت پر میڈیا کی چشم پوشی پر لکھا گیا ۔۔میڈیا کی حقیقت جتنی جلدی ہم سمجھ لیں اتنا ہی بہتر ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بلاگ قندوز افغانستان میں قرآن کی تقریب اسناد پر امریکی بمباری میں 100 سے زیادہ حفاظ اور علماء کی شہادت پر میڈیا کی چشم پوشی پر لکھا گیا ۔۔میڈیا کی حقیقت جتنی جلدی ہم سمجھ لیں اتنا ہی بہتر ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں