بچے جیسے ہی ٹیوشن
اور کوچنگ سے گھر پہنچے ، ان کے لیے ہدایت تھی ۔
" جلدی سے تیا ہوجاؤ ! پھپو کے ہاں جانا ہے منگنی میں
۔۔۔! "
" ابھی سے ؟ صرف ساڑھے چھہ بجے ہیں ؟ " بچوں کا
احتجاج جائز تھاکیونکہ آج صبح امتحان تھا ۔کل رات سے نیند پوری نہ ہوئی تھی
۔ تھکن سے چور تھے ۔
" بیٹا ! قریبی رشتہ دار کو جلدی پہنچنا ہوتا ہے ۔گھر
میں تقریب ہے ۔۔۔! "
بچے بڑ بڑا ہٹ کے باوجود سات بجے تیار تھے روانگی کے لیے۔ پھپھو کے گھر پہنچےتو
وہاں عملا جھاڑو ہی لگ رہی تھی ۔ سب کام میں ان کے ساتھ لگ گئے ۔ تھوڑی دیر میں
اور رشتہ دار بھی آ پہنچے ۔ گھر اور گھر والے نک سک سے تیار ہوکر لڑکے کے گھر
والوں کے منتظر تھے جو آ کر ہی نہ دے رہے تھے۔ بھوک اور تھکاوٹ کو دبائے سب انتظار
کی گھڑیاں گن رہے تھے۔ کھانے کی دیگیں بھی آ پہنچی تھیں اور خوشبو سب کو بے چین کر
رہی تھی مگر مہمان خصوصی کے بغیر کھا نا کیسے کھل سکتا تھا؟ دس بجے کے قریب ان کے
گھر فون کیا گیا تو معلوم ہوا کہ لائٹ کےآنے کے منتظر ہیں ۔ ساڑھے دس پر آئے گی تو
استری ہوگی پھر نکلیں گے ۔۔۔۔آگے کا قصہ بیان کرنا بیکار ہے ! ہم سب تصور کر سکتے
ہیں ۔گیارہ بجے کے بعد آمد ، رسم ، کھانا ، سامان سمیٹنا ، ٹریفک جام ۔۔۔یقینا
قارئین یہ کہیں گے کہ اس میں کون سی انوکھی بات ہے ! یہ تو آج کا معمول بن چکا ہے
!
اصل موضوع پر آنے سے پہلے تھوڑی سی وضاحت کہ عمومی تقریبات
جو کلب / ہال وغیرہ میں ہوتی ہیں وہاں تو شرکاء جاتے ہی دس بجے کے بعد ہیں ،اپنے سارے کام نبٹا کر ،آرام کر
کے تروتازہ ہونے کے بعد ،تو ایک ڈیڑھ گھنٹے کی تقریب میں اتنی خواری نہیں ہوتی
جبکہ گھر کی تقریب کے بارے میں سوچا جا تا ہے کہ تھوڑے سے لوگ تو وقت کی پابندی سے
آ سکتے ہیں مگر جہاں وی آئی پی کلچر کی وبا ہو وہاں ہر کوئی اپنی تقریب کے وقت اس
کا مظاہرہ کرنا اپنا حق سمجھتا ہے اور اگر
عمومی مہمان بن کر انتظار کرنا پڑے تو وقت کے ضیاع پر تقریر تیار ہوتی ہے۔۔
اس منظر نامے کو جس سے ہر فرد خوب واقف ہے اور ہر ہفتے نہ سہی
ہر مہینے تو ضرور بھگتتا ہے کئی حوالوں سے
بات ہوسکتی ہے !رشتہ داری کا نیٹ ورک اور
اس کا جبر ( خصوصا پھپو ! ) ، رسومات کی
بہتات اور تسلط ، گھروں میں تقریب کی زحمت
،بجلی کی لوڈ شیڈنگ وغیرہ وغیرہ ! لیکن یہ سب ضمنی ایشو ہیں ۔ اصل مسئلہ وقت کی
بربادی ہے !اس کا کوئی حل ؟؟
سندھ حکومت نےیکم نومبر سے دکانوں /بازاروںاور شادی ہالوں کےنظام الاوقات
کے بارے میں تازہ احکامات جاری کیے
ہیں جن پر یا تو خاموشی ہے یا تنقیداور
عمل کرنے سے انکار ! پچهلی
سوئی ہوئ حکومت پر ہم دل بهر کر ٹهٹهول کرتے رہے اب اگر ایک نئے چابک دست حکومت نے
کچھ اقدامات کا فیصلہ کیا ہے تواس کی تائید کرنی چاہیے .، خواہ یہ اقدامات کاسمیٹک ( اوپری ) ہی کیوں نہ ہو ۔اس وقت جو صورت حال ہے کہ
عملا دن بهر سب بند اور رات کو چمک دمک!
صبح کے اوقات میں ایک عجیب سی منحوسیت اور شام کو یلغار!
دیکهنا یہ ہے کہ اس کو کس طرح قابل عمل بنایا جاسکتا ہے؟تجاویز کے سلسلے میں کالم کے کالم لکهے جاسکتے ہیں مگر اصل بات قوت عمل کی ہے ! مشاہدہ یہ ہے کہ بہت سے کام زبردستی ٹهونسے جاتے ہیں ، رسمی ہی سہی مگر اس کے کچھ نہ کچھ اثرات معاشرے پر ضرور پڑتے ہیں مثلا ضیا ءالحق کے نظام صلاۃٰ اور سر ڈهکنے کے احکامات کو کتنا ہی غلط استعمال کیا جائے یا مضحکہ بنایا جائے بہر حال اس نے معاشرے میں مثبت روایات کی بنیاد ڈال دی جسے ختم کرنا آسان نہیں ! ہم حکومت کے شاکی، عدالتوں سے ناراض ، اداروں سے خفا ، عالمی ٹھیکیداروں سے نفرت کا اظہار کرتے ذرا نہیں چوکتے مگر سوچنے کی بات ہے کہ ہم اپنے معاشرے کی اصلاح کے لیے کیا کر سکتے ہیں ؟
دیکهنا یہ ہے کہ اس کو کس طرح قابل عمل بنایا جاسکتا ہے؟تجاویز کے سلسلے میں کالم کے کالم لکهے جاسکتے ہیں مگر اصل بات قوت عمل کی ہے ! مشاہدہ یہ ہے کہ بہت سے کام زبردستی ٹهونسے جاتے ہیں ، رسمی ہی سہی مگر اس کے کچھ نہ کچھ اثرات معاشرے پر ضرور پڑتے ہیں مثلا ضیا ءالحق کے نظام صلاۃٰ اور سر ڈهکنے کے احکامات کو کتنا ہی غلط استعمال کیا جائے یا مضحکہ بنایا جائے بہر حال اس نے معاشرے میں مثبت روایات کی بنیاد ڈال دی جسے ختم کرنا آسان نہیں ! ہم حکومت کے شاکی، عدالتوں سے ناراض ، اداروں سے خفا ، عالمی ٹھیکیداروں سے نفرت کا اظہار کرتے ذرا نہیں چوکتے مگر سوچنے کی بات ہے کہ ہم اپنے معاشرے کی اصلاح کے لیے کیا کر سکتے ہیں ؟
اس بات پر فیسبک پو سٹ لکھی تو ہماری فرینڈز لسٹ اور ان کے
فرینڈز ، جن کی تعداد مل جل کر ہزار کے لگ بھگ ہوگی ان میں سے دس پندرہ نے لائک
اور ایک دو نے شئیر کا اور تبصرہ کا حقدار سمجھا ۔۔۔۔اس سے ہماری تر جیحات کا
اندازہ ہوتا ہے ۔وقت جو زندگی ہے اور جس کا حساب دینا ہے ، نہ صرف انفرادی بلکہ
اجتماعی ! اس کو سلب کرنے والے مشاغل کے بارے میں ہم کس حد تک سنجیدہ ہیں ! اس کی
درستگی کے لیے نہ کسی راکٹ سائنس کی ضرورت ہے اور نہ ٹیکنالوجی کی ، نہ کچھ ایکسپورٹ
کرنا ہوگا نہ کچھ ٹیکس دینا ہو گا ۔بس اپنی الجھی ہوئی اور بگڑی ہوئی عادتیں درست کر نی ہوں گی ۔
حکومت کے بارے میں ہمارے شکوک و شبہات اپنی جگہ مگر بہر حال ہمیں موقعے سے فائدہ اٹھا تے ہوئے بادل ناخواستہ ہی سہی تعاون کرنا چاہیےکیونکہ یہ بات درست ہے کہ ہمارا سب سے زیادہ وقت بازاروں اور شادی ہالوں کے نظام الاوقات کے باعث ضائع ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے اس سے سو فیصد بہتری نہیں ہوگی مگر کچھ نہ کچھ برکتیں ضرور نظر آئیں گی ان شاء اللہ !
حکومت کے بارے میں ہمارے شکوک و شبہات اپنی جگہ مگر بہر حال ہمیں موقعے سے فائدہ اٹھا تے ہوئے بادل ناخواستہ ہی سہی تعاون کرنا چاہیےکیونکہ یہ بات درست ہے کہ ہمارا سب سے زیادہ وقت بازاروں اور شادی ہالوں کے نظام الاوقات کے باعث ضائع ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے اس سے سو فیصد بہتری نہیں ہوگی مگر کچھ نہ کچھ برکتیں ضرور نظر آئیں گی ان شاء اللہ !
"رات تو اپنی ہے "کے مقولے پر عمل کرنے والوں سے عرض ہے
کہ اسے اللہ نے آرام کے لیے بنا یا ہے ۔ہاں اگر کسی کی جاب کی نوعیت ایسی ہے یا
بیمار افراد جن کو رات بھر نیند نہیں آتی باقی لوگوں کو ہر گز اپنی حیاتیاتی
گھڑیوں سے کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ! بہتر ہوگا کہ ہم اپنے نظام
الاوقات کو سورج اور نمازوں کے لحاظ سے ایڈجسٹ کرلیں !اگر ہم رضا کارانہ طور پر
نہیں بدل سکتے تو قوانیں کے تحت ہی تبدیل ہوجائیں ۔کہیں سے تو وقت کے ضیاع کو قابو
میں کیا جاسکے تا کہ تعمیری سر گرمیاں اپنی جگہ بنا سکیں
----------------------------------------------
٭ فر حت طاہر ٭
Like
Love
Wow
Sad
بہت زبردست
جواب دیںحذف کریںGood topic.
جواب دیںحذف کریں