ابویہ ہی ٹھیک ہیں!!
ابو
کا نام ذہن میں آتے ہی چشمہ لگائے،گرے بالوں کے نیچے ماتھے پر ڈھیروں شکنیں لیے ہر
بات ہر اعتراض کرنے والے مرنجان مرنج شخص کا حلیہ نظر میں گھومتا ہے۔مگر یہ اس وقت
کی بات ہے جب انہیں ابو بنے عر صہ گزر گیا ہو ورنہ تو ایک اچھا خاصہ صحت مند، خوش باش
نوجوان ہی ہوتا ہے جب اسے اولاد کی خوش خبری ملتی ہے۔اس وقت قطعی اندازہ نہیں ہوتا
کہ بچے کی عمر کا ہر دن اس کے زوال کی طرف جائے گا! ایک بچے نے اپنے باپ سے ان کے سفیدہوتے
بالوں کی وجہ پوچھی تو باپ نے بتایا کہ بچے کی ہر شرارت باپ کا ایک بال سفید کر دیتی
ہے تو بچے نے تائید میں سر ہلاتے ہوئے کہا جبھی دادا کا سارا سر سفید ہو گیا ہے
....... یقیناً باپ بچے کو گھور کر رہ گیا ہوگا! بات تو سچ ہے
مگر ہے رسوائی کی!
شرارتوں کے ضمن میں ملا
نصر الدین کا واقعہ تو سب نے پڑ ھا اور سنا ہی ہو گا جب انہوں نے اپنے بیٹے کو پیالہ
توڑنے سے پہلے ہی پیٹ ڈالاتھا اور لوگوں کے استفسار پر فرمایا نقصان ہونے کے بعد پیٹنے
کا بھی بھلا کوئی فائدہ ہے؟ ہمارے والد کی پٹائی مٹکا توڑنے کی کوشش پر ہوئی جواتنی
زبر دست تھی کہ اس کی گونج بذریعہ دادی جان براستہ امی جان ہم سب تک پہنچی اور ہم اپنے
باپ کی مظلومیت پر آہ بھر کر رہ گئے محض ایک معمولی گھڑے کی وجہ سے ہمارے باپ پر تشددہوا
(اب یہ اور بات کہ اس وقت وہ معمولی چیز زندگی جتنی قیمتی تھی!) لیکن جیسا کہ یہ خاندانی
ظلم نسل در نسل چلتا ہے ہمارے ابا نے اپنا بدلہ اپنے بیٹوں کی پٹائی کر کے لیا۔ جس
میں سے دو واقعات کا ذکر کرنا چاہیں گے۔
ہمارے
بھائی جمعہ کی نماز کا بہانہ کر کے پکنک پر چلے گئے! یہ کوئی باقاعدہ پکنک نہ تھی بلکہ
گھر سے کچھ فاصلے پر ۴۸ انچ قطر کی پائپ لائن ڈالی جارہی تھی وہاں پانی
کا بڑا سا ذخیرہ بچوں کے لیے تفریح گاہ بن گیا تھا۔لہذا منجھلے بھائی وہاں تفریح کر
کے واپس آئے تو ابا نے ان سے جمعے کے خطبے اور امام کی پڑھنے والی سورتوں کا احوال
پوچھ لیا! آئیں بائیں شائیں پر خوب تواضع ہوئی مگر جب رات کو کان میں درد ہوا، پانی
میں تیرنے اور شاید تھپڑ کی وجہ سے تو رات کو ان کے پاس ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا فریضہ
ابا کا ہی تھا۔ دوسرا واقعہ چھوٹے بھائی کا ہے جو ابا کے ساتھ ہی سوتے تھے۔یہ ہی کوئی
پانچ، چھہ سال عمر ہوگی تو انہوں نے ابا کی میز سے ایک نوٹ اٹھا کر اپنے نائٹ سوٹ کے
پاجا مے میں اڑس لیا۔ اس زمانے میں ایک روپے کی بھی بڑی اہمیت تھی۔ نہ جانے کیا کیا
خریدنے کا منصوبہ بنا کر ننھے بھائی سوئے ہوں گے مگر صبح بھول بھال یونیفارم پہن کر
اسکول روانہ ہوئے تو امی نے وہ روپیہ نکالا اور ابا نے اپنا کیش چیک کیا توچوری کا
انکشاف ہوا۔ اب بھائی سے تفتیش ہوئی تو مکرنے لگے (بڑے بھائی بہنوں کی موجودگی میں
چھوٹے بچے وقت سے پہلے بہانہ بازی سیکھ لیتے ہیں!)اس پر اچھی خاصی کھچائی ہوئی۔ایسے
بہت سے واقعات ہیں جن کا ذکر کر کے ہم آپ کے زخم ہرے نہیں کرنا چاہتے! شر مندہ نہ ہوں
ہم کچھ نہیں جانتے آپ پر کیا گزری آپ کے ابو کے ہاتھوں!کیا کہا؟تربیت کے ضمن میں ہوئی
تھی! ہاہا ہا! دل کے بہلانے کو غالب خیال اچھا ہے!
بات ہمارے ابا سے شروع
ہوئی تھی جو بچپن سے ہی شریر واقع ہوئے تھے۔ شرارتی بچے بے مقصد کام بے حد توجہ سے
سر انجام دیتے ہیں جبکہ ہر مفید اور بامقصد کام کو ضرور بگاڑ بیٹھتے ہیں۔ کچھ ایسے
ہی کہانی ہمارے ابا کی بھی تھی! ایک اچھی بات جو اس وقت ہوئی تھی جب ہمارے دادا نے
اپنے دونوں بیٹوں کو پرائمری جماعتیں پڑھنے کے بعد پڑھائی ختم کرنے کا عندیہ دیا کہ
مزید تعلیم دلوانا ان کے بجٹ سے باہر ہے۔ دونوں بیٹوں نے سر جھکالیا مگر چھوٹے نے(جو
بعد میں ہمارے والد بنے)دل ہی دل میں ایک منصوبہ بناڈالا (اگر ہمیں اندازہ ہوتا کہ
ہمیں یہ سب لکھنا ہوگا تو ہم بہت توجہ سے اس کی جزئیات معلوم کر کے رہتے اور اب تو
اس واقعے کا ہر عینی شاہد بلکہ راوی تک اس دنیا سے گزر چکا ہے لہذاا پنی معلوماتی ذخیرے
کے بل پر ہمیں اپنی بات مکمل کرنی پڑے گی)
جو کچھ یوں ہے کہ ابا جان
گھر سے فرار ہوکر قریبی قصبے کے اسکول پہنچے اور اپنا داخلہ کروایا۔اس وقت ان کی عمر
بارہ سال ہوگی۔اگر ان سے کہہ دیا جاتا کہ تم یہ نہیں کرسکتے تو شاید وہ اعلٰی تعلیم
کا خواب لیے دنیا سے چلے جاتے!یہ تو ایک شرارتی بچے کی بے خوفی اور دیدہ دلیری تھی
کہ وہ یہ کر گزرے! اب ذرا والدین کے لحاظ سے سوچیں! کیا گزری ہوگی اپنے چھوٹے بیٹے
کی جدائی پر دادا اور دادی پر! رات کے آخری پہر وہ داخلے کی خوشخبری لے کر پلٹے ہوں
گے تو دادا بھی حضرت یعقوب کی طرح شاد ہوئے ہوں گے! اب آگے سنیے! ابا کے اباداخلے کی
خبر پاکر پھر تفکر کا شکار ہوئے کہ پڑھائی کے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے؟ اس فکر
کو وظیفہ (اسکالر شپ) کی اطلاع سے دور کیا! والدین مطمئن کہ اب دونوں بھائی اپنی تعلیم
مکمل کر سکیں گے مگر ابھی رہائش کا مسئلہ تھا جسے اپنے رشتہ دار کے گھر فرش پر سوکر
حل کیا۔ وہ بھی مخمصے کا شکار کہ بہت ہی ڈھیٹ بچے ہیں!
وہاں کی پڑھائی سے فارغ ہوئے
تو قیام پاکستان کا مرحلہ تھا۔ ہمارے ابا نے پھر جولانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے استاذ کے ہمراہ پاکستان
کی راہ لی۔ اس وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی۔پھر وہی والدین کی پریشانی کا دور! تفصیل
کی گنجائش نہیں بس ذرا تصور کر لیں!یہاں سیٹ ہوکر انہوں نے اپنے والدین اور بہن بھائی
کو بلوالیا۔ یوں ایک سفر نئے انداز سے شروع ہوا۔بقول اباجان
” ...پاکستان ہمارے
لیے کسی نعمت سے کم نہیں! ......“ تعلیم کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی کرتے رہے۔ اس دوران شادی کا مر حلہ ہوا اور پھر ان کو ابا بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔
ایک بچے سے اس کے ابو کی
عمرپوچھی گئی تو جواب ملا ”جی میرے برابر ہے!
کیسے؟ بھئی جب میں پیدا ہوا تو ہی تو ابو
بنے نا....! “کتنا معنی خیز فلسفہ تھا اس بچے کا! اسی طرح کی بات ہماری بہن صاحبہ بھی
اپنے بچپن میں کرتی تھیں کی تھی یعنی جہاں کہیں باپ اور بیٹا ایک شکل کے نظر آئے فوراً
تبصرہ جھاڑ ڈالا کہ ابو تو بالکل اپنے بیٹے پر گئے ہیں!
اپنے بچپن میں ہم نے ایک
دفعہ سوال کیا(جب اپنی امی کے منہ سے ان کے ابا کا ذکر سن سن کر ہم بہت متا ئثر تھے)
”....امی! آپ کو کب پتہ
چلا کہ یہ(ہمارے نانا) آپ کے ابو بنیں گے؟؟“
اس احمقانہ سوال کی تفہیم کو جانیں دیں اس کے پس منظر کو سمجھیں .....جی ہاں!
ہمارے ننھے ذہن میں یہ سوچ آئی ہوگی کہ شاید والدین منتخب کرنے کا اختیا ر بچوں کو
حاصل ہوتا ہے یا ہونا چا ہیے! کم از کم ابو تو اپنی پسند کا لینے کی آزادی ہو! اوراس
سوچ کے پیچھے بھی یقیناً اسُ وقت کے حالات و واقعات ہوں گے جہاں نانا ابا کے ساتھ ٹافیاں،
سیر سپاٹے، تفریح، شوخی، حتٰی کے برابری اور کسی حد تک بد تمیزی بھی جائز تھی جبکہ
اس فہرست میں سے بہت سی باتیں اپنے ذاتی ابا کے ساتھ بھی منسوب تھیں مگر تربیت کے نام
پر
ایک خوف کا تاثراس زمانے کی ہر ماں کی طرح
ہماری والدہ محترمہ بھی ہمارے اوپر ڈالتی رہتی تھیں:
”..آنے دو ابا کو
.....“ ”.....ابا کو بتاؤں
گی......!“ ”بہت بگڑیں گے تمہارے ابا
...“
اب
ظاہر ہے اس قسم کے جملے سن سن کر ہم ابا کو جلاد نہ سمجھتے تو کیا کرتے! مگر جناب صرف
یہ جملے ہی تو نہیں تھےبلکہ عملی اقدامات بھی تھے
الماریوں پر چھا پہ مارنا
کہ چیزیں تر تیب سے ہوں، نمازوں کی جانچ پڑتال، دانتوں اور ناخنوں کی صفائی سے لے کر
موزوں اور بنیانوں تک کی چیکنگ ......ان کا قول تھا کہ چیزیں ایسے رکھو کہ اندھیرے
میں بھی مل جائے! (اب بتائیں بھلا ہم وہ لوگ جو تیز روشنی میں سامنے کی چیز نہ ڈھونڈ
پائیں بلکہ ہر ہر منٹ پر امی کی پکار لگے اور بیچاری کام دھام چھوڑ کر مطلوبہ چیز دستیاب
کریں!)ہم اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے پر بجا طور پر درست تھے نا!
اور ہم سب کے بڑے ہونے
سے اعتراضات کی نوعیت بھی بدل رہی تھی اور ساتھ ساتھ ان کے اقدامات اور ہمارے رد عمل
بھی! مثلاً ایک خاص وقت کے بعد پنکھا بند ہو
جا نا، باہر سے آتے ہی ٹی وی کا درجہ حرارت چیک کرنا کہ ان کی آمد سے ہی بند ہوا ہے
شاید ...پھر جس دن بل موصول ہوتے اس دن ٹیلی فون کے گرد کوئی پھٹک نہ پاتا۔ حالانکہ
ہمارا بل حکومت کے ذمے تھا اور وہ کبھی مقررہ رقم سے تجاوز نہ کرپاتا تھامگر ابا کی
تھیوری یہ تھی کہ عادتیں قابو میں رہیں! ایک بات ضرور بتانا چاہیں گے۔ایک وقت آیا کہ
سب سے چھوٹا بھائی ہی ان کی دسترس میں باقی رہ گیا۔اس کی ٹیلی فون ڈائری میں درج نمبروں
کی تعداد ان کے غصے کا باعث بنتی کہ اتنے لوگ کہاں سے اس کے رابطے میں آ گئے؟ کس کس
سے ملتا ہے؟ اور ہم اپنی ہنسی روک نہ پاتے! عرض کرتے یہ سارے دوست نہیں ہیں! کسی سے
ٹیوشن لینا ہے،کسی کو دینا ہے، کسی سے قرض لیا ہوا ہے کوئی خود قرض دار ہے وغیرہ وغیرہ.....حتیٰ
کہ کسی سے راستے میں ملاقات ہوئی ہو تو نمبروں کا تبادلہ ہوا ہو،اب اس کو ہر وقت تو
فون نہیں کرتا ہو گا نا .....! بس اتنے ہی سادہ مزاج تھے ہمارے ابا!
ان
کی ایک خاص بات حد سے زیادہ پیدل چلنے کی عادت تھی۔ ان کے دوست مذاق میں کہا کرتے تھے
کہ آپ نے تو کیمپس کی سڑکیں چل چل کر گھسا دی ہیں۔ ایک وقت آیا کہ ان کی رفتار کم ہوگئی
اور ہم سب خوفزدہ رہتے تھے کہ کہیں ان کو کوئی گاڑی ٹکر نہ مار دے مگر اس کی نوبت نہ
آئی بلکہ اس سے بہت پہلے ہی وہ گھر اور بالآ خر بستر تک محدود ہو گئے۔ اب ہمارے اور
ان کے درمیان فاصلے ختم ہوچکے تھے(ویسے امی کی ڈالی ہوئی ہیبت تو ہمارے شعور میں آتے
ہی ہوا ہو چکی تھی جب ہم ابا اور بچے ڈائریکٹ ڈائلنگ نظام کے تحت آ چکے تھے!) اور اب
موقع تھا کہ ہم ان کی داستان زندگی ان کی زبانی سنتے مگر بہت جلد ان کی زبان بھی بند
ہوگئی اور پھر بچوں کی سی معصومیت لیے وہ ہمیں چھوڑ گئے۔
ایک ویڈیو آپ نے ضرور
دیکھی ہوگی جس میں بچے اپنی ماں کی شکایت کرتے ہیں اور اپنے کسی دوست کی ماں کو آئیڈیل
مانتے ہیں کہ ہمیں ویسی امی اچھی لگتی ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ ٹھیک ہے آج سے آپ
اپنی ماں تبدیل کرلیں تو ہر ایک نہیں ...نہیں ...نہیں کی گردان کرتا ہے! اور وہ بچہ
جو سب سے زیادہ ماں کا شاکی ہوتا ہے آنکھوں میں آنسو لیے رندھی ہوئی آواز میں کہتا
ہے امی تبدیل نہیں ہوسکتیں!!
.....تو بس یہ ہے حقیقت!! ابو بھی اپنے ہی اچھے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔!
- ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فر حت طاہر
اپنے ابا ہی ٹھیک ہیں ۔
جواب دیںحذف کریں