ہفتہ، 14 مئی، 2016

سفر شرط ہے !

       


 ”ہمارے امتحان ۲۱ / مارچ کو ختم ہوں گے....!  محمد یوسف نے فون پر اطلاع دی۔وہ اس سال تیسری جماعت کا امتحان دے رہے ہیں۔

  اور شروع کب سے ہیں؟  یہ نہیں معلوم! امی کو پتہ ہوگا! ہکا بکا نہ ہوں! ظاہر ہے امتحان کی تیاری ان سے زیادہ امی کا مسئلہ ہے!!  ۱ نہیں تو بس اس بات کی فکر کہ کب پڑھائی سے نجات ملے گی ....تو بس وہ تاریخ یاد رکھی!  اس دفعہ تو یوں بھی بے چینی سے انتظار ہے کہ شمالی علاقوں کی سیر کا پروگرام طے تھا۔ ریلوے بکنگ ہو چکی تھی اورچھٹیاں منظور! درمیان میں امتحان کامرحلہ ہی تھا۔  بچوں کی توجہ منتشر ہونے سے بچانے کے لیے تفریح کا ذکر تک نہ ہو پاتا۔ بس وقفہ میں ایک دن جاکر جوتے، بیگز اور ضروری شاپنگ مکمل کر لی گئی۔ اورا متحان کے اگلے دن ہی ہماری روانگی تھی۔
   آج صبح سے ہنگامی نوعیت تھی۔ تمام کام سمیٹے جارہے تھے۔سفر کے لیے تیاری عروج پرتھی۔ہر قسم کی تیا ری! زاد راہ سے لے کر گھر کی حفاظت اور مکمل صفائی تک! جب گھر کا بچہ بچہ تیاری میں جت جائے تو بڑے لطیفے سر زد ہوتے ہیں۔کچھ کام دوہرا جاتے ہیں اور کچھ سرے سے انجام ہی نہیں پاتے! اس کے علاوہ جہاں جارہے ہیں وہاں کے موسم کے حوالے سے مستقل خبریں آرہی ہیں کہ پچھلے چھتیس گھنٹوں سے مسلسل بارش ہورہی ہے!ظاہر ہے سفر کے خدشات میں موسم کی شدت کا عنصر بھی شامل ہے! ان تمام مرحلوں سے گزر کر وقت روانگی آپہنچا اور اسٹیشن جانے والی گاڑی آگئی۔ بیگز اور سوٹ کیسوں کی تعداد ہر فرد بار بار گننے میں لگ گیا جو ہر دفعہ مختلف آتی! وجہ؟کبھی کندھے کا بیگ گنا جاتا اور کبھی نہیں، ظاہر ہے فرق تو آنا تھا۔ خیر اس مرحلے سے بھی گزر کر ہماری گاڑی روانہ ہوئی۔ ٹریفک جام بڑی بے چینی کاسبب بنتا کہ کہیں ہماری ٹرین نہ چھوٹ جائے مگر ایسا نہ ہوا۔ ہم اسٹیشن وقت سے بہت پہلے پہنچ گئے۔ پلیٹ فارم پر تھوڑی دیر بیٹھے تھے کہ ٹرین آئی اس میں اطمینان سے بیٹھے تب کہیں جا کر چلنے کی نوبت آئی۔ اور خوشی کی بات کہ ٹرین وقت پر روانہ ہوئی۔ الحمد للہ سفر کی ابتدا بہت اچھی ہوئی۔ دعا اور امید ہے کہ اختتام بھی بخیر ہو!


ٹرین کے چلتے ہی نماز عصر ادا کی۔قصر پڑھنے کا موقع مل رہاہے لہذا اس سے فائدہ اٹھا نا ہے۔ٹرین شہری آبادی سے نکلی تو خوبصورت مناظردل و دماغ کو بشاشت دینے لگے۔اے سی کوپے کی وجہ سے صرف ایک طرف کا نظارہ ممکن ہوتا ہے چنانچہ کھڑکی کے پاس بیٹھنے کے لیے کشمکش رہی مگر تھوڑی ہی دیر میں اندھیرا چھانے کے باعث اس منظر میں کوئی کشش نہیں رہی لہذا سب دیگر مشاغل میں مصروف ہوگئے۔

 بچوں کے لیے اوپر چڑھنے اور اترنے کی سر گر می بھی وجہ ڈانٹ ڈپٹ بنتی رہی۔ اب بیچارے اتنی سی جگہ میں کیا کرتے؟ دنیا چھوٹی سی جگہ پر سمٹ آئی تھی تو زندگی کی حقیقت آشکارا ہورہی تھی کہ ہم نے خواہ مخواہ لوازمات زندگی اتنا بڑھا دیا ہے!  ویسے ضروریات زندگی تمام موجود تھی۔کھانا وافر، ماحول میں خوشگوار ٹھنڈک،آرام کے لیے بستر،پڑھنے کے لیے کتب، رابطوں کے لیے موبائیل.....اور تو اور یوسف نے پانی کی لٹر بوتل کو الٹا کر ہولڈر میں لٹکا یا ہواتھا جو ڈسپنسر کا کام دے رہا تھا۔ عشاء کے وقت کھانا کھا کر سونے کی تیاریوں میں لگ گئے۔ ڈائننگ کا ر سے بار بار مختلف چیزوں کی آفر آتی رہی مگر ماشاء اللہ ہم خود ہر چیز میں خود کفیل تھے۔


صبح آنکھ کھلی توہماری ٹرین پنجاب میں داخل ہوچکی تھی۔ سر سبز کھیت اور باغات اللہ کی حمد و ثناء پر اکسا رہے تھے۔ آموں اور دیگر پھلوں سے لدے باغات دعوت اشتہا دے رہے تھے اگرچہ اس منظر میں خوشبو اور آوازوں کی کمی بوجہ ونڈو گلاسزموجود نہ تھی۔ٹرین اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی بڑے اسٹیشن پر زیادہ دیر کے لیے رکتی جبکہ چھوٹے چھوٹے آکر گزتے رہے۔

ملتان کے اسٹیشن پر نیشنل بک فاؤنڈیشن کے اسٹال سے پاکستان ریلوے کا شائع شدہ میگزین خریدا تو ایک نئی سر گرمی ہاتھ آگئی اسکا لفظ لفظ پڑھا گیا اور اس میں موجود ٹرینوں کے شیڈول اور اسٹیشنوں کے نام پر بحث کہ اب کون سا آ ئے گا!  یہاں اپنے قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض کریں کہ پاکستان ریلوے اور نیشنل بک فاؤ نڈیشن کے باہم اشتراک سے تمام بڑے اسٹیشنز کے پلیٹ فار م پر کتابوں کا سٹالز بنائے گئے ہیں اس کے علاوہ کتب بینی کے فروغ کے لیے کافی کام ہو رہاہے جو قابل ستائش ہے!
لاہور سے پہلے رائے ونڈ پر ہمارے تمام ہمراہی جو کراچی سے ہمارے ساتھ سفر پر روانہ ہوئے تھے اپنی منزل پر پہنچ کر جدا ہوئے۔ جی ہاں! تبلیغی گروپ جو اتنی بڑی تعداد میں تھے کہ بقول یوسف ٹرین اب اتنی چھوٹی ہوگئی ہے (ڈبے جو کم کر دیے گئے ہیں)۔ لاہور اسٹیشن پر کافی ہلچل  رہی۔ٹرین چھوٹنے کا خوف اب کچھ کم ہو گیا ہے لہذا محمد یوسف نے پلیٹ فارم پر سیر بھی کر لی۔





اب لاہور سے پنڈی کی طرف سفر شروع ہوگیا ہے۔اور شہری علاقے سے گزر کر صنعتی علاقے نظروں کے سامنے تھے۔گوجرانوالہ سے گجرات کی طرف جاتے ہوئے نہ صرف موسم تبدیل ہوگیا بلکہ کچھ اندھیرا بھی چھانے لگا۔لالہ موسٰی اور کھاریاں کے بعد تو سردی کے بڑھنے کے احساس پر سب نے اوپر کی طرف رکھے گرم کپڑے نکال لیے۔ کراچی والوں کے لیے تو خاصی تبدیلی تھی! یوں تو سارے پنجاب میں بارش کے آثار نظر آئے مگر اب باقاعدہ گرج چمک کے ساتھ شیشوں پر بارش کے اثرات نمایاں ہورہے تھے۔ ساتھ ہی ٹرین کی رفتار بھی سست ہوچلی تھی۔یوں تو باہر اندھیرا تھا مگر ہچکولے کھانے سے اندازہ ہورہا تھا کہ ہم پوٹھو ہاری علاقے سے گزر رہے ہیں۔ کئی دفعہ سرنگوں سے گزرے جس کا احساس ٹرین کی آواز بدلنے سے ہوا۔ مغرب کی نماز جمع بین الصلاتین کے تحت  راولپنڈی پہنچ کرعشاء کے ساتھ ملا کر پڑھنے کا سوچا۔ہمیں ٹرین میں مقید ہوئے چوبیس گھنٹے سے زیادہ گزر چکے تھے اوربے چینی سے منزل پر پہنچنے کے متمنی تھے۔ دوسری طرف جہاں پہنچنا تھا وہاں سے بھی کب؟ کہاں؟کتنا؟  استفسار شروع ہوگیا تھا  یعنی سراپا انتظار!دوسرے موسم پر ذرا تشویش کا اظہار! جہلم کے بعد چکلالہ کا بورڈ نظر آیا تو ہم نے سامان سمیٹنا شروع کر دیا۔ 1548کلو میٹر کا فاصلہ تقریباً ستائیس گھنٹے  میں طے کر کے آٹھ بجے ہم پنڈی پہنچ گئے۔ گاڑی کاانتظا م پہلے ہی ہو چکا تھا!  یہ سب موبائیل فون کی کرامت ہے کہ ہم راستے بھر اس کے ذریعے نہ صرف سب لوگوں سے رابطے میں رہے بلکہ ضروری کام بھی نبٹاتے رہے۔ ٹرین رکی تو سب بہت اطمینان سے اترے! آخری اسٹیشن جو تھا! جلدی کا کوئی ایشو نہ تھا۔



بھیگا بھیگا پنڈی اسٹیشن! بارش رک چکی تھی مگر ہر طرف اس کے اثرات نمایاں تھے۔ہرکام ایک مشینی انداز میں ہورہا تھا۔ اپنے اپنے ہینڈ بیگ سنبھال کر قلی کی سربراہی میں آہنی پل کراس کرکے عمارت سے باہر نکلے تو ہم خواتین خاصے پیچھے رہ گئیں تھیں۔ شاید اتنے گھنٹوں تک نہ چلنے کی وجہ سے رفتار کم ہوگئی تھی۔ آنکھیں پھاڑ کر دیکھا تو یوسف سامان کے ڈھیر کے پاس کھڑا نظر آیا۔ ڈرائیور نے گاڑی قریب لائی اور سامانکے ڈھیر کے پاس کھڑا نظر آیا۔ ڈرائیور نے گاڑی قریب لائی اور سامان رکھاپھر ہم سب بھی بیٹھ گئے۔ ہماری میزبان کے مطابق اسٹیشن سے ان کا گھر دس منٹ کے فاصلے پر ہے لیکن ظاہر ہے اگر آپ پہلی دفعہ کہیں جا رہے ہوں تو زیادہ وقت ہی لگتا ہے گھر تلاش کرنے میں اور جبکہ سامان بھی لوڈ کرنا ہو! بہر حال آدھے گھنٹے کے اندر ہم اپنے ٹھکانہ پر پہنچ گئے جہاں ہماری میزبان ان کے بچے اور ایک مہمان رشتہ دار دستر خوان سجائے ہمارے منتظر تھے۔فریش ہوکر کھانے پر بیٹھ گئے۔ حالانکہ ٹرین میں ہم کھا نا کھا چکے تھے بلکہ صاف کر چکے تھے اور ان سے کہہ بھی دیا تھا مگر ام اسماعیل (ہماری مہربان میزبان!) کے اصرار اور محبت کے آگے ہماری ایک نہ چلی۔دوسری بات کہ کھا نا اتنا مزیدار اور طریقے سے چنا گیا تھا کہ ہم ہاتھ نہ روک پائے۔(ظاہر ہے پچھلے چھتیس گھنٹوں بعد آداب طعام کے ساتھ کھا نا کھا یا گیا ورنہ تو سفر میں کس طرح کھا یا جا تا ہے ..حالانکہ اس کا الگ اپنا لطف ہے!) 
کھانے کے دوران دلچسپ گفتگو بھی رہی! ہم سب کو رہائش اور موسم کے لحاظ سے ضروری بریفنگ دی گئی۔ اس دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ دس بجے لائٹ چلی جائے گی ایک گھنٹے کے لیے! جی ہاں! لوڈ شیڈنگ یہاں بھی ہوتی ہے۔ہم سب باتوں میں ایسے منہمک تھے کہ بجلی آبھی گئی یعنی پورا گھنٹہ گزر گیا!دستر خوان پر بیٹھے بیٹھے!! باتیں! باتیں اور صرف باتیں! گزری باتیں اور آنے والے دنوں کے پروگرامز!!
پنڈی کیسا لگا؟ یوں تو جہاز سے اسلام آبادہمارا کئی دفعہ آنا ہوا مگر پنڈی کا اپنے ہوش میں پہلا سفر تھا۔ برسوں پہلے اپنے بچپن میں پنڈی کا سفر کیا تھا۔ اس کی کچھ ہلکی سی جھلک ذہن میں محفوظ ہے۔سب کچھ ویسا نہیں ہے مگرہر کمرے میں آتش دان ویسے ہی ہیں!یہاں کے موسم میں اس کی موجودگی ضروری ہے! بستر پر گرتے ہی نیند کی وادیوں میں کھوگئے۔



    صبح اٹھے تو اپنے اوپر ایک مزید کمبل پایا۔ہمارے میزبانوں کا خیا ل تھا کہ ہمیں یہاں کے موسم کو ہلکا نہ لیں! اس موقع پر مشتاق یوسفی کا تبصرہ یاد آتا ہے جس میں موسم کو لحافوں کی تعداد سے معلوم اور دریافت کیا جا سکتا ہے.. اتنی تھکاوٹ تھی کہ نئی جگہ ہونے کے باوجود گہری نیند سے الارم کی آواز سے ہی اٹھے۔چونکہ یہاں صبح تقریباً آدھ گھنٹے پہلے ہوتی ہے۔اپنے شہر میں جو وقت بستر سے کسمسا کر نکلنے میں خرچ ہوتا ہے یہاں ضائع کرنے کامطلب نماز فجر سے محرومی تھی لہذا فوری اٹھ بیٹحے۔ ہماری میز بان نے لاؤنج میں ایمر جنسی لائٹ جلا رکھی تھی۔معلوم ہوا کہ صبح پانچ سے چھ بجے بھی لائٹ جاتی ہے! نماز وغیرہ سے فارغ ہوکر سونے کا ارادہ کیا کہ ..ابھی بستر کی طرف بڑھے ہی تھے کہ گیٹ پر کسی کی آمد کی بیل بج اٹھی۔اور ہم سب کے کان لپیٹ کر پڑنے کے باوجود مسلسل بجتا رہا۔کوئی ڈھٹائی سی ڈھٹائی ہے!معلوم ہوا ہماری میزبا ن نے اپنے مہمانوں کی تواضع کے لیے اپنے جاننے والوں سے گدے اور کمبل ادھار مانگے تھے(یہ یہاں کا کلچر ہے مہمان کی آمد پر سب ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں)  لہذا ان کا ڈرائیور معذرت کے ساتھ کہ رات بارش تیز تھی نہ پہنچ سکا۔ اس نے جلدی جلدی اپنا بوجھ ہلکا کر کے گاڑی دوڑا دی اور ہم گھگھی باندھے اس ڈھیر کو دیکھ رہے تھے جو ایک پہاڑ کی شکل میں کمرے میں رکھا گیا۔ مگر یہ سب تو بہت زیادہ ہے! ہمارا احتجاج صدا بہ صحرا ثابت ہوا اور یہ سارا ڈھیر کمرے کے کنارے سج گیا۔ اہتمام تو کرنا ہی پڑتا ہے کہ نہ جانے کب ضرورت پڑ جائے!
جب سب اٹھے تو پر تکلف ناشتہ خوش گپیوں میں کھا یا گیا۔ اس دوران یادوں کی پٹاری کھلی اور کھلتی ہی چلی گئی۔ عزیزہ لبنیٰ کا فون آنے لگا! وہ منتظر بیٹھی تھیں ہماری میزبانی کے لیے! ان سے یہ ہی کہا کہ ہماری آمد کی خوشی میں یہاں بچوں تک نے چھٹی کی ہے لہذا ہم آج کادن یہیں آ رام کرکے کل سے تفریح کریں گے ان شاء اللہ!  آج کی چمکدار، خوبصورت دھوپ دیکھ کر یقین نہیں آرہا کہ یہ وہی جگہ ہے!  ()()

1 تبصرہ: