!محبت پنکھ پکھیروں
کی
اس ڈرامے کے دوسرےسیزن میں
بہت سے نئے کردار اور معاملات
سامنے آتے ہیں جبکہ کچھ پرانے کردار بھی اپنی روش بدلتے نظر آتے ہیں لیکن پہلے سیزن کے آخری منظر سے ہی
دوسرے سیزن کا آغاز ہوتا ہے ۔
جی ہاں ! ظفر اربائے کو طارق کی گولی لگی اور وہ زخمی ہوگیا
جبکہ طارق مارا گیا۔ طارق کی لاش تو مراد ( ظفر کا ڈرائیور ) نے ٹھکانے لگا دی جبکہ
زخمی ظفر کو تیمی اور عارف
ہسپتال لے جاتے ہیں ۔ خون کی ضرورت پڑنے پر عارف خون بھی دیتا ہے لیکن صحت
یاب ہونے کے بعد وہ عارف کو اپنی بیٹی سے دور رہنے کا حکم دیتا
ہے جس پر تیمی غصے کا اظہار کرتی ہے ۔اسپتال
کے ریکارڈ میں سے ظفر کا نام نکال دیا جاتا ہے بلکہ پولیس بھی کوئی
مقدمہ درج نہیں کرتی کیونکہ اس طرح طارق کے قتل کا معاملہ ہی اٹھتا ! ( جبکہ یہ ماروائے عدالت قتل تھا )س پر عارف چو کنا ہوکر انسپکٹر آتش کو ساری صورت حال سے آگاہ کرتا ہے ۔ وہ معاملے کی سن گن پاکر تفتیش کرتے ہیں
لیکن کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا چنانچہ وہ
عارف کو بھی اس معاملے سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہیں ۔ دوسری طرف کمیونسٹ پارٹی
طارق کی گمشدگی کا الزام اسلامسٹ پر رکھتی ہے ۔
اس سیزن کے آغاز میں عمر کی دادی کا کردار شروع
ہوتا ہے ۔ یہ بوڑھی خاتون بڑے رعب
ودبدبے والی ہیں اور پورے محلے کی اماں اور دکھ سکھ میں شریک ہوتی ہیں ۔ دوسرا کردار فلزہ نامی طالبہ کا ہے جو دوسرے شہر سے پڑھنے آئی ہوئی ہے
اور ہاسٹل میں رہائش پذیر ہے ۔وہ شعبہ
لٹریچر کے تیسرے سال میں ہے ۔ اس کی اعلیٰ کارکردگی کے پیش نظر اس کےاستاد اسے
معاون استاد بننے کی آفر کرتے ہیں جسے وہ بخوشی منظور کرلیتی ہے لیکن جب وہ سر پر
اسکارف لینے لگتی ہے تو وہ اسے کلاس سے نکال دیتے ہیں ( اس وقت خواتین کو سر ڈھک کر اداروں میں آنے
پر قانونا ممانعت تھی)۔ جب یہ بات عمر کو معلوم ہوتی ہے تو وہ اس ٹیچر کی ٹھکائی
کرکے فلزہ کوکلاس میں داخل
کرواتا ہے ۔ یہ بات فلزہ کو پسند نہیں آتی
کہ بقول اس کے میں تشدد پر یقین
نہیں رکھتی ۔۔لیکن اس کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے کوپسند کرنے لگتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دوران اہم قومی معاملہ سامنے آتا ہے جب یونان قبرص
پر حملہ کرکے 25 فوجیوں کو شہید کر دیتا ہے ۔ طلبہ
یونین اس پر سخت رد عمل دیتی ہے اور عارف کی
تجویز پر قبرص
کے دفاع کی خاطر رضاکارانہ
افراد کی رجسٹریشن کے لیے اسٹال
لگاتی ہے جہاں جوق درجوق نوجوان اپنے نام
درج کرارہے ہوتے ہیں ۔ اس اسٹال پر آئیڈیلسٹ بھی
بھرپور حصہ لے رہے ہوتےہیں عمر کا کہنا ہے کہ ہم نے اذان کی حفاظت کی اور
اب قبرص کا دفاع کریں گے جبکہ سرخے
قبرص کے بجائے طارق کی گمشدگی کی مہم چلا نے کا پلان کرتے ہیں
ظفر گروپ کا کہنا ہے کہ ناٹو ممبر ہونے کی وجہ سے ہم فوج
نہیں بھیج سکتے ۔ اس موقع پر امریکی تھامس
سے ظفرکی ملاقات ہوتی ہے ۔ ظفر کا یہ رویہ سامنے آتا ہے کہ امریکی سے بات کرتے وقت
باچھیں کھلی ہوتی ہیں جبکہ اپنے ہم وطنوں اور زیر دست افراد سے تکبر
اور خشونت سے بات ہوتی ہے ۔ تھامس خدشہ ظاہر کرتا ہے کہ کچھ طلبہ پارٹیاں قبرص کے
معاملے پر لوگوں کو ابھاریں گی اور اس قومی معاملے پر کہیں دائیں اور بائیں والے
متحد اور یکسو نہ ہوجائیں ! لیکن ظفر اس کا
توڑ تیار کرتا ہے
آگ لگانے اور آگ بجھانے کے لیے مذہبی مبلغین کو استعمال کیا جاتا ہے !
فتنہ کی آگ کو پھیلانا
اور جہاد کی آواز کو خاموش کروانا
''۔۔۔اگر طاقت نہیں، اسلحہ نہیں تو قبرص کا
خیال چھوڑ دو. ! طاقتور کا ساتھ دو..." . فتحی
مبلغ کہتا ہے
"۔۔۔طلبہ
لڑائی الگ بات ہے لیکن حکومت کے خلاف کارروائی کرنا حماقت ہے.. میڈیا، پولیس فوج
کے خلاف نہیں جانا ورنہ ہمیں بھی قبرص بنادیں گے. " رمزی خالد کو ورغلاتا ہے ۔
یہاں پر حسن صاحب کا بیٹا خالد پرابلم چائلڈ بن کر سامنے آتاہے ۔ ہوا یوں
کہ وہ اور اسکے دوست ایک کمیونسٹ لڑکے کی
پٹائی کر رہے ہوتے ہیں ت ووہ بھاگتا
ہوا یونین بلڈنگ کے اندر چلا جا تا ہے ۔ مصطفیٰ
اس کو پناہ دیتا ہے جس پر خالدبہت سخت ناراض ہوتا ہے ۔ رمزی اس کو مزیدبھڑ کاتا ہے۔ اس لڑکے کو بچاتے ہوئے مصطفیٰ خود زخمی ہوجاتا
ہے ۔ پھر وہ لڑکا اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل
کر خالد کو پیٹ ڈالتا ہے ۔ گھر والوں کے استفسار پر ان پر ہی پلٹ پڑ تا ہے ۔
مصطفیٰ اور زینب کو برا بھلا کہتا ہے ۔ماں اس کی حمایت
کرتی ہے جبکہ باپ رویہ درست کرنے کو کہتے
ہیں تو
جوابا کہتا ہے کہ آپ کو میری کیا
پرواہ ؟ آپ تو بس عارف کے لیے ہلکان ہوتے ہیں ۔۔ گھر سے لڑ جھگڑ کر
رمزی کے ٹھکانے پر چلا جاتا ہے جو اسے گھر
والوں سے برگشتہ کرتا ہے ۔ عمر کی چھوٹی بہن شاکرہ جو خالد کی بچپن کی ساتھی اور پسندیدہ ہے ۔ ان سب پر بہت دل گرفتہ ہے !
امداد روانگی برائے قبرص
قبرص کی حمایت اور مدد کے لیے عوای رائے عامہ موجو د ہے لیکن حکومتی ادارے اس کے خلاف ہیں
میجر امین ( بارش) قبرص کے لیے اسلحہ لے کر روانہ ہوتے ہیں مگر انٹیلیجنس افسر کی
اطلاع پر انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔
ان کی مدد کے لیے سارجنٹ خالد جاتا ہے اور کسی نہ کسی طرح ان سے جیل میں ملاقات
کرلیتا ہے وہ اسے ایک خط بنام انسپکٹر جمیل آتش دیتے ہیں ۔ وہ یہ خط ان تک پہنچاتا ہے جس کے مطابق میجر امین
سے ایک
حلفیہ بیان پر دستخط
لینے کے لیے تشدد ہورہا ہے کہ وہ یہ اسلحہ عمر تک پہنچانا چاہتا ہے ۔ (
ظاہر ہے یہ عمر کو سزا دلوانے کا ظفر کا
پلان ہے !) ۔میجر امین خالد کو
ایک تعویز دیتے ہیں جس میں مجاہدین کی فہرست ہوتی ہے ۔ اس کو حاصل کرنے کے
لیے ایجنسیاں انسپکٹر خالد کی تلاش میں رہتی ہیں ۔ اس کے گھر والوں پر بھی تشدد
کرتی ہیں ۔ میجر امین اور خالد اپنی جان قربان کردیتےہیں لیکن فہرست ان تک نہیں
پہنچنے دیتے ہیں ۔ ایجنسیاں اسلحہ قبضے میں
لے کر عمر کی گرفتاری کا منصوبہ تیار کر لیتی
ہیں ۔
قبرص کے لیے لگائے گئے اسٹال پر حملہ ہوتا ہے جس میں عمر کا ساتھی محمد شہید
ہوجاتا ہے۔
تیمی ریستوران میں عارف کا
انتظار کر رہی ہوتی ہے تو ریڈیو پر حملے
کی خبر نشر ہوتی ہے ۔ وہ بھاگ کر یونیورسٹی پہنچتی ہے اور قبرص کے لیے رضاکاروں کی فہرست
میں سب سے اوپر عارف کا نام دیکھ
کر پوچھتی ہے :
'' ۔۔ اگر جنگ ہوگئی تو کیا تم چلے جاؤ گے ؟
۔۔"
تو عارف
تباہ حال اسٹال اور محمد کی لاش کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ
"۔۔۔۔۔ کیا ہم پہلےہی حالت جنگ میں
نہیں ہیں۔۔۔" اور وہ افسردہ ہوجاتی ہے ۔
ظفر
کی ہدایت پر یلدرم چھپ کر عارف کو گولی مارنے لگتا ہے لیکن تیمی کے سامنے آجانے سے نشانہ چوک جاتاہے۔ طلبہ یونین اس حملے کے خلاف
پریس کانفرنس کرتی ہے
ادھر عمر کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس اور فوج کے دستے روانہ ہورہےہیں ۔ فلزہ
عمر کے گھر اس کی خیریت کے لیے جاتی ہے۔
وہاں زینب، عمر اور اسکی دادی اور بہنوں کے ساتھ ایک خوشگوار ماحول میں بات ہورہی ہوتی ہے ۔ اتنے میں انسپکٹر جمیل
عمر کی گرفتاری کی خبر لیک کرتےہوئے اس کو فرار ہونے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ پہلے وہ انکار کرتا ہے لیکن
بہنوں اور دادی کی التجا پر سوچ میں پڑ
جاتاہے ۔ فلزہ بھی جانے کا اشارہ دیتی ہے۔
دادی کہتی ہیں
' ۔۔۔۔ جب بھیڑیا زخمی ہوتا ہے تو
زخم بھرنے تک ایک جگہ ٹھہر جاتا ہے ۔۔تم بھی
یہ ہی کروگے ۔۔۔!"
ادھر پولیس اور فوج کے آگے پورا محلہ
رکاوٹ بن کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ اور وہ انسپکٹر جمیل کے ساتھ چھت کے ذریعے چلاجاتا ہے ۔
اپنے مشن کی ناکامی پر ظفر بہت برانگیختہ ہے ۔ وہ صحافی لیلی ٰ کو خبر کا پلندہ دیتا ہے جس میں اسلحے کی عمر کے
حوالے سے خبر ہوتی ہے ۔ لیلیٰ اس پر سوال اٹھاتی ہے کہ اسلحہ تو محمد کی شہادت سے قبل پکڑا گیا ہے تو
اس میں عمر کا انتقامی اقدام کیوں ؟ بہر
حال وہ چونکہ ظفر کے تابع ہے اس لیے وہ من
و عن رپورٹ شائع کر دیتی ہے (میڈیا کی بد
دیانتی !) عمر کی بڑی سی تصویر کے ساتھ یہ پورٹ دیکھ
کر صدر ابراہیم بہت سخت غصہ ہو کر کہتے ہیں :
"۔۔۔۔پریس
کانفرنس کی کوئی خبر نہیں البتہ ایک الزام کی سرخی بنادی. بے ایمان میڈیا۔۔۔۔"
اور اخبار کی کاپیاں جلاتے
ہیں ۔
عمر چونکہ مفرور ہے
لہذا اس خبر کی اشاعت اس کے لیے سخت مشکل پیدا کردیتی ۔ وہ پولیس سے بچنے کے لیے قبرستان میں پناہ لیتا ہے ۔ مافیا
کا آدمی اسحق ٰ اسے اپنے ٹھکانے پر لے
جاتا ہے ۔ اسحاق بھی ظفر کے حلقہ
اثر میں ہے اور عمر سے کہتا ہے کہ
تمہارے والد اور میں دوست اور ساتھی تھے۔ اس نے بعد میں شادی اور اولاد کے بعد مجھ
سے کنا رہ کرلیااور دکان کھول لی۔
۔۔۔۔جرم بے گناہی پر انتقام کی چمک میں تمہاری
آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں ۔۔۔" اسے اپنے ساتھ شامل کرنے پر اصرار کرتا ہے جس
کے جواب میں عمر کہتا ہے
"۔۔۔میں بدمعاش
نہیں اور میری آنکھوں میں جو چمک ہے وہ شہادت کی تڑپ ہے اپنے
وطن کے لیے ۔۔۔"
عمر کے فرار کے بعد ظفر یلدرم کو آئیڈلیسٹ
پارٹی کا اختیار سنبھالنےکا مشورہ دیتےہیں
لیکن اس پر عمر کے ساتھیوں کا احتجاج سا منے
آتا ہے
طارق کے قتل کے الزام میں سرخے ظفر کو اغوا کر لیتے
ہیں. اور وہ کہتا ہے کہ
"۔۔۔۔۔ تم. لوگ طارق جو نہیں جانتے؟؟
میں جسے جرم کہوں وہ جرم ہے اور جسے نہ کہوں وہ
نہیں ہے۔۔۔" "۔۔۔
ایک
ایڈمرل ظفر کو رہا کروالیتا ہے۔
باپ اور بیٹوں کی کہانی !
طارق
موت سے چند لمحے قبل یہ جملہ کہتا ہے !
" ۔۔۔ تم بھی سنو عارف ! یہ دو باپ بیٹوں کی کہا نی ہے ۔۔۔"
اس نے لیلیٰ کے لیے جو فائل
چھوڑیں ان میں عارف کے باپ کے قتل کی رپورٹ ہوتی ہے ۔ یہ فائل
و ہ عارف کو دیتی ہے ۔ اس میں اس کے باپ کے قاتل کا نام ہوتاہے ۔ اس فائل
پر وہ انسپکٹر جمیل اور اپنے پھوپھا دونوں سے بات کرتا ہے اور دونوں اسے
خاموش رہنے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ اس کو مرنے سے پہلے کی گئی طارق کی ادھوری باتیں بھی یاد آتی ہیں ۔ بہر حال اسے اپنے باپ کے قاتل کا پتہ
چل جاتا ہے اور وہ کوئی اور نہیں ظفر ہوتا
ہے ۔( ظفر کویہ بات عارف کی تحقیقات کرتے ہوئے پہلے ہی معلوم ہوگئی تھی ۔ )
عار ف نےاپنے باپ کے قاتل کو کیسے پہچانا ؟
اسما ء
خاتون عارف کو اپنے بیٹے کبلائی کی بابت بتاتی ہیں ۔انہیں خدشہ ہے کہ کوئی اس کو تکلیف دینا چاہتاہے ۔ انہوں نے
عارف سے کبلائی کےسلسلے میں مدد مانگی ۔ عارف کچھ پس وپیش کے بعد راضی ہوجاتا
ہے ۔ اسما نے انکشاف کیا کہ کبلائی
نے جنون میں میری بہن کے گھر آگ لگادی
تھی جس میں میری بہن ، بہنوئی ( روشنی کے والدین ) ختم ہوگئے تھے۔ یہ گفتگو روشنی سن لیتی ہے۔
روشنی پہلے ہی طارق کے قتل پر افسردہ ہے اس پر سخت غصے
میں آکر پولیس کو کبلائی کے بارے میں رپورٹ کرتی ہے۔ پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی عارف اسماء کے
ساتھ مل کر کبلائی کو نکال لیتا ہے اور یونین بلڈنگ میں مصطفیٰ کی نگرانی
میں چھوڑ دیتا ہے۔ راستے میں
مسجد سے اذان کی آواز پر کبلائی
دورے کی کیفیت میں آتا ہے
جس پر عارف کو حیرت ہوتی ہے ۔ کبلائی
مصوری بہت اچھی کرتا ہے ۔ تو
مصطفیٰ کے زیر نگرانی وہ اس منظر کی اسکیچنگ کرتا ہے جب عارف کے باپ کو
شہید کیا جارہا ہوتا ہے اور اس منظر میں ننھاعارف بھی ہوتا ہے ۔ اس پر عارف
کبلائی سے پوچھ گچھ کرتا ہے تو وہ
بار بار یہ جملہ دہراتا ہے
"۔۔۔۔ اس کو مت ماریں ! ان کا بیٹا بھی ہے ۔۔۔" اس کے ہسٹیریائ جملے عارف کو
بہت کچھ سمجھا دیتے ہیں ۔ اورکبلائی کے جنون کی وجہ بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔ تیمی
اور روشنی بھی اپنے اپنے طور پر کبلائی کی
موجودگی کی جگہ جان لیتی ہیں ۔ تیمی پہلے تو
بھائی سے لاعلم رکھنے پر ماں سے غصہ ہوتی ہے لیکن پھر بھائی کو گھر لے جاتی
ہے ۔ اس کی جراءت سے اسما کو بھی ہمت ملتی ہے
لیکن اسے دیکھ کر روشنی گھر سے چلی جاتی ہے ۔ ظفر کمیونسٹوں سے رہا ہوکر گھر آتا ہے تو اس سارے
واقعے پر غصہ کا اظہار کرنا چاہتا ہے لیکن
شریف
اس کا پرانا خاندانی دوست اور کولیگ اسے روک دیتا ہے ۔ کرنل شریف کا پر اسرار کردار کہانی میں
آگے سامنے آتا ہے ۔
حسن صاحب کے گھر پر قیامت ٹوٹ پڑی :
حسن
صاحب اپنی بیگم کی پرواہ کیے بغیر زینب کی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئےمصطفٰی
سے منگنی کی بات طے کرلیتے ہیں ۔ اس دفعہ سادگی سے ہورہی ہے ۔ خالد شرکت سے انکار
کر دیتا ہے جس پر عمرکی دادی کہتی ہیں
میرا عمر تو بھاگنے پر مجبورہے لیکن خالد کو کیا ہوا ۔۔۔۔؟ منگنی کے موقع پر
مبیرہ بیگم مصطفیٰ کو سامان کی فہرست دیتی ہیں
جو شادی کےلیے اسے مہیا کرنی ہیں ۔
وہ وعدہ کرلیتا ہے ۔ اس کے لیے اس کو سخت
محنت مزدوری کرنی پڑ رہی ہے تو اس کی مدد
کے لیے زینب سلائی کا کام مصطفٰی کی
ممانعت کے باوجود کرنے لگتی جس پر وہ ناراض ہوجاتا ہے لیکن پھر ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ اسے اپنا غصہ بھول جاتا ہے ۔
عارف یہ جان لیتا ہے کہ ظفر ہی اس کے باپ کا قاتل ہے۔
توانتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے ۔ یہ بات وہ
عمر کو بتاتا ہےا ور وہ دونوں پستول لے کر ظفر تک پہنچ جاتے ہیں لیکن عین اسی وقت تیمی
سامنے آجاتی ہے اور وہ دونوں رک جاتے ہیں ۔ عارف نے تیمی سے کترانا شروع کردیا
ہے جبکہ وہ یہ جاننے کے لیے بے چین ہے کہ
عارف نے اس کے باپ پر پستول کیوں اٹھا ئی ؟ ظفر
اسے اپنے ساتھی کے قتل کی وجہ بتاتاہے لیکن وہ یقین نہیں کرتی ۔
رمزی کے ذریعے خالد کو کمیونسٹوں کے کیفے میں
پٹرل بم پھینکنے کا کام دیا جا تا ہے ۔ وہ
دباؤ میں آکر کر لیتا ہے لیکن بہت پریشان
ہے ۔ طلبہ یونین نے قبرص پر کانفرنس کا
اہتمام کیا ہے ۔ اس میں نجم الدین اربکان بھی شریک ہوں گے۔ اس
کانفرنس میں ظفر بم رکھوانے کا
بھیانک پلان بناتا ہے ۔ اتفاق سے یہ تیمی سن لیتی ہے اور وہ وہاں پہنچ کر
رکوانے کی کوشش کرتی ہے ۔
اگرچہ اس کانفرنس
کا آئیڈیا عارف کا ہی تھا لیکن وہ
اتنا آزردہ ہے کہ اس میں شرکت کے بجائے گھڑی کی دکان میں بیٹھا ہے ۔ رمزی یہ دیکھ
کر کہ عارف اس میں شریک نہیں ہے عارف کو
بہانہ بنوا کر فون پر بلوا لیتا ہے ۔ تیمی وہاں پہنچ کر بم کی اطلاع دیتی ہے جس پر سب عمارت سے باہر آجاتے ہیں جبکہ خالد ایک کمرے میں قید ہے ۔ عارف اس کی تلاش میں اندرجاتا ہے اور بم دیکھ کر خالد کو جلدی سے باہر نکال دیتا ہے ۔ اس اثنا ء میں رمزی بم کا دھماکہ کر
دیتا ہے ۔ خالد اور عارف شدید زخمی ہوتے ہیں
اور عارف شہید ہوجاتا ہے ۔ تیمی نے چونکہ خود اپنے کانوں سے بم رکھنے کی پلاننگ سنی تھی ۔ اپنے باپ سے نفرت اور انتقام پر اتر
آتی ہے اور بالآ خر ایک ایسی حرکت کرتی ہے
کہ اسرائیلی سفیر کے گارڈ ز اس کوگولیاں
مار دیتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں
اس ڈرامہ کا آدھا حصہ ختم ہوتا ہے ۔ عارف
اور تیمی کی کہانی انجام کو پہنچی لیکن کچھ نئے کرداروں کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی
ہے